Monday, October 7, 2024
homeاہم خبریںکلکتہ ہائی کورٹ کا اوبی سی پر فیصلہ۔۔۔ممتا بنرجی کی قیادت والی...

کلکتہ ہائی کورٹ کا اوبی سی پر فیصلہ۔۔۔ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ

کلکتہ :انصاف نیوز آن لائن

اوبی سی سرٹیفکٹ پر کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک طرف جہاں ممتا بنرجی نےعدالت کی نیت پر حملہ کرکے پورے معاملے کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کی ہے وہیں ۔سی پی آئی نے کہا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن نکات کو اٹھایا ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ممتا حکومت نے اوبی سی ریزرویشن اور برادریوں کو اوبی سی کا درجہ دینے کے لئے قانون کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔

سی پی آئی ایم لیڈر اور کلکتہ شہر کے مشہور ڈاکٹر فواد حلیم نے کہا کہ ممتا بنرجی اول دن سے ہی اوبی سی ریزرویشن کو لے کر مخلص نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ 2009میں رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بائیں محاذ حکومت نے اس رپورٹ کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد رپورٹ کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کےلئے انہوں نےسروے کرائے اور اس کے بعد 2010 میں بنگال اسمبلی کے بجٹ سیشن میں مسلمانوں کی پسماندہ برادری کو ریزرویشن فراہم کرنے کیلئے بل پاس کرایا گیا ۔ مگراس وقت کے گورنرنارائن نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بل کو واپس کردیا ۔ اس کے بعد سرمائی اجلاس میں اس بل کو دوبارہ اسمبلی میں پاس کرایا گیا ۔اس بل کی منظوری کیلئے دوبارہ گورنر کو بھیج دیا گیا۰
2011کے شروعات آتے آتے گورنر کو احساس ہوگیا کہ شاید بائیں محاذ حکومت کی واپسی نہیں ہونے والی ہے اس لئے گورنر نے اس بل کو روکے رکھا۔ اور مئی2011میں ممتا بنرجی اقتدار میں آگئیں ۔ممتا بنرجی نے اس بل کو یہ کہتے ہوئے واپس لےلیا کہ اس بل کو مزید بہتر کرکے قانون سازی کی جائے گی

ڈاکٹر فواد حلیم نے کہا کہ ممتا بنرجی نے بل کو بہتر کرنے کے بجائے مزید کمزور کردیا اور بل کو پیش کرتے وقت اصول و ضوابط کی پاسداری نہیں کی ۔اس بل جن برادریوں کو ریزرویشن ملنا تھا اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
کسی بھی کمیونیٹی کو ریزرویشن دینے کا اختیار اسمبلی کا ہے ۔مگر ممتا حکومت نے ریزرویشن دینے کا فیصلہ نوٹی فیکشن کے ذریعہ کیا۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے اسی بنیاد بناکر اوبی سی ریزرویشن پر یہ فیصلہ سنایا ہے۔

ڈاکٹرفواد حلیم نے کہا کہ اس فیصلے سے اگر 5لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں تو اس کیلئے واحد ذمہ دار ممتا بنرجی کی حکومت ہیں ۔ان کی نیت کبھی کبھی صاف نہیں تھی ۔وہ جانتی تھیں یہ قانون غلط طریقے سے بنایا جارہا ہے ۔مگر انہوں نے اس لئے بنایا کہ ایک طرف عوام کو خوش کرسکیں تو دوسری طرف انہیں امید تھی کہ عدالت اس قانون کو رد کردے گی اور انہیں نوکری نہیں دینا پڑے گا۔

سی پی آئی ایم کے جنرل سیکریٹری محمد سلیم نے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ بایاں محاز کی حکومت ملک کی سب سے پہلی اور واحد حکومت تھی جس نے رنگا ناتھن مشرا کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے او بی سی ریزرویشن کو 17 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مسلم سماج میں بالخصوص معاشی سماجی اور تعلیمی اعتبار سے بچھڑے ہوئے طبقے کو تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن دیا جاسکے۔

محمد سلیم نے کہا کہ رنگا ناتھن مشرا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کی بنیاد پر سابق ممبر پارلیمنٹ مسعودالحسن اور سابق اوبی سی کمشنر نے پوری ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ اوبی سی اے اور بی زمروں کی فہرست تیار کی۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے 2010 میں بایاں محاذ کے دور حکومت میں تیار کیے گئے فہرست کو تسلیم کیا ہے۔ ممتا بنرجی اقتدار میں آنے کے بعد او بی سی ریزرویشن کو تہس نہس کر دیا ہے ۔ ممتا حکومت نے او بی سی کے تعلق سے قانون کو نظر انداز کردیا۔ ایک طرف کھلے منچ سے رشوت خوری کے ذریعہ سرٹیفیکٹ تقسیم کئے گئے تو دوسری طرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کمیشن اور دستور کی ہدایت کی کھلی طور پر خلاف ورزی کی گئی اور انہیں خلاف ورزی کے نتیجے میں کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ دیا ہے اس درمیان ہائی کورٹ نے کئی دفعہ ممتا بنرجی کی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی اور کہا تھا کہ اس معاملے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ سفارشات پر عمل درآمد کی جائے لیکن ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کی ہدایت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

محمد سلیم نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ممتا حکومت جلد سے جلد کلکتہ ہائی کورٹ کای ہدایت کے مطابق اوبی سی ریزویشن کا بل اسمبلی میں پیش کرے تاکہ ریاست کے پسماندہ افراد کو ریزرویشن مل سکے۔اس سلسلے میں جو غلطیاں اب تک ہوئی ہیں اور جو غلط قانون بنائے گئے ہیں ان کی درستگی کر کے سدھار کیا جائے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین