نی دہلی:
’وقف (ترمیمی) قانون 2025‘ کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر عدالت عظمیٰ نے 20 مئی کو سماعت کی۔ چیف جسٹس بی آر گوئی کی صدارت والی 2 رکنی بنچ نے دونوں فریقین کی دلیلیں سنیں اور کئی معاملوں میں وضاحت بھی طلب کی۔ اس بنچ میں شامل دوسرے جج جسٹس آگسٹن جارج مسیح ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے پاس قوانین کے آئینی جواز سے متعلق انتہائی اہم تبصرہ کیا۔ انھوں نے وقف (ترمی) قانون کو چیلنج پیش کرنے والے عرضی دہندگان سے کہا کہ ’’پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس قوانین میں آئینی جواز کا عنصر ہوتا ہے اور کوئی قانونی آئینی نہیں ہے، اس کا جب تک کوئی پختہ ثبوت سامنے نہیں آتا، عدالتیں اس میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔‘‘
آج ہوئی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے گزارش کی کہ وہ عبوری حکم پاس کرنے کے لیے ’وقف (ترمیمی) قانون‘ کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر سماعت کو 3 موضوعات پر محدود رکھے، جن میں ’کورٹ، یوزر اور ڈیڈ‘ کے ذریعہ اعلان کردہ وقف ملکیتوں کو ڈی-نوٹیفائی کرنے سے متعلق بورڈس کا اختیار بھی شامل ہے۔ مرکز کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ کے سامنے یہ گزارش رکھی۔ تشار مہتا نے کہا کہ ’’عدالت نے 3 موضوعات نشان زد کیے تھے۔ حالانکہ عرضی دہندہ چاہتے ہیں کہ ان 3 موضوعات سے الگ بھی کئی دیگر ایشوز پر سماعت ہو۔ میں نے ان 3 موضوعات کے جواب میں اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ اسے صرف 3 موضوعات تک ہی محدود رکھا جائے۔‘‘
اس معاملے میں ’وقف (ترمیمی) قانون‘ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والے عرضی دہندگان کی طرف سے پیش سینئر وکیل کپل سبل اور ابھشیک منو سنگھوی نے مرکز کی دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اہم قوانین پر ٹکڑوں میں سماعت نہیں ہو سکتی۔ کپل سبل نے دلیل پیش کی کہ ترمیم شدہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم تو سبھی موضوعات پر دلیل رکھیں گے۔ یہ مکمل وقف جائیداد پر قبضہ کرنے کا معاملہ ہے۔ کپل سبل نے سپریم کورٹ سے کہا کہ اس معاملے مین عبوری حکم جاری کرنے پر سماعت ہونی چاہیے۔ یہ قانون غیر آئینی اور وقف جائیداد کو کنٹرول کرنے والا اور چھیننے والا ہے۔
وقف ترمیمی قانون کے بارے میں بات کرتے ہوئے کپل سبل نے کہا کہ ترمیم شدہ قانون میں التزام کیا گیا ہے کہ وقف کی جانے والی جائیداد پر کسی تنازعہ کا اندیشہ ہونے پر جانچ کیا جائے گا۔ کلکٹر جانچ کریں گے اور جانچ کی کوئی مدت کار نہیں ہے۔ جب تک جانچ کی رپورٹ نہیں آئے گی، تب تک جائیداد وقف نہیں مانی جائے گی۔ جبکہ جائیداد اللہ کے نام پر وقف کی جاتی ہے۔ ایک بار وقف ہو گیا تو ہمیشہ کے لیے ہو گیا۔ حکومت اس میں معاشی مدد نہیں دے سکتی۔ مساجد میں چڑھاوا نہیں ہوتا، وقف ادارے عطیہ سے چلتے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ درگاہوں میں تو چڑھاوا ہوتا ہے۔ جواب میں ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ میں مساجد کی بات کر رہا ہوں، درگاہ الگ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مندروں میں چڑھاوا آتا ہے، لیکن مساجد میں نہیں۔ یہی ’وقف بائے یوزر‘ ہے۔ بابری مسجد بھی ایسی ہی تھی۔ 1923 سے لے کر 1954 تک الگ الگ التزامات ہوئے، لیکن بنیادی اصول یہی رہے۔
کپل سبل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ وقف قانون میں ترمیم کے ذریعہ ایک ایسا عمل تیار کیا گیا جس کے ذریعہ سے وقف جائیداد پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ وقف کو عطیہ کردہ نجی ملکیتوں کو صرف اس لیے چھینا جا رہا ہے کیونکہ ان کے تنازعہ کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے، یا ان کے مالکانہ حق کو لے کر تنازعہ ہے۔ اس قانون کو وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ مذہبی اداروں کی فنڈنگ کر سکتا۔ اگر کوئی مسجد یا قبرستان ہے تو اسٹیٹ اس کی فنڈنگ نہیں کر سکتا، یہ سب نجی ملکیت کے ذریعہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ مسجد میں جاتے ہیں تو وہاں مندروں کی طرح چڑھاوا نہیں ہوتا، ان کے پاس 1000 کروڑ، 2000 کروڑ نہیں ہوتے۔
کپل سبل کچھ دیگر اہم حقائق پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیا قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی ملکیت اے ایس آئی کے تحفظ میں ہے تو یہ وقف نہیں ہو سکتی۔ اس پر چیف جسٹس بی آر گوئی نے سوال کیا کہ کیا اس سے آپ کا اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے؟ کیا آپ وہاں جا کر عبادت نہین کر سکتے؟ جواب میں سبل نے کہا کہ ’’ہاں، اس قانون میں کہا گیا ہے کہ وقف جائیداد کو رد مانا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے پھر سوال کیا کہ کیا اس سے آپ کا مذہبی عمل سے متعلق اختیار چھین لیا جاتا ہے؟ سبل نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی جائیداد کی وقف منظوری ہی ختم ہو جاتی ہے تو میں وہاں کیسے جا سکتا ہوں؟ اس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کھجوراہو میں ایک مندر آثار قدیمہ کے تحفظ میں ہے، پھر بھی لوگ وہاں جا کر پوجا کر سکتے ہیں۔ تو کیا اس طرح کے اعلان سے آپ کو عبادت کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا؟ جواب میں سبل کہتے ہیں کہ اگر آپ کہتے ہین کہ وقف منظوری رد کی جاتی ہے، تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اب وہ جائیداد قف نہیں ہے۔ میرا یہی کہنا ہے کہ یہ التزام آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ پھر عدالت نے ریکارڈ پر لیا کہ عرضی دہندگان نے کہا ہے کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے اور شہریوں سے ان کی مذہبی عمل کو جاری رکھنے کا اختیار چھین لیا جائے گا۔
’وقف (ترمیمی) قانون، 2025‘ کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے عرضی گزاروں کے وکلاء کی دلیلیں بغور سنیں اور کچھ معاملوں میں وضاحت کے لیے سوال بھی سامنے رکھے۔ آج ظہرانہ سے قبل اور پھر اس کے بعد مجموعی طور پر تقریباً 4 گھنٹے کی سماعت ہوئی جس میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف کئی مضبوط دلیلیں پیش کی گئیں۔ آج کی سماعت کے دوران عرضی دہندگان کے وکلاء کپل سبل، ابھشیک منو سنگھوی، راجیو دھون، حذیفہ احمدی وغیرہ نے اپنی بات عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھی۔ کل جب سماعت شروع ہوگی تو حکومت کی طرف سے عرضی گزار کے خدشات اور سوالات پر جواب پیش کیے جائیں گے۔ آج کی سماعت میں مذکورہ وکلاء نے کئی مضبوطی دلیلیں پیش کیں، جن میں سے 10 اہم دلائل ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
دلیل نمبر 1: سینئر ایڈووکیٹ ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ عطیہ دوسرے مذاہب میں بھی ہوتے ہیں، لیکن کس مذہب کے لیے لوگوں کے لیے یہ انتظام ہے کہ آپ کو 5 سال یا 10 سال اس مذہب پر عمل کرنے کا ثبوت دکھانا ہوگا؟ وقف ترمیمی قانون میں موجود یہ سہولت آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔
دلیل نمبر 2: ایڈووکیٹ ابھشیک منو سنگھوی نے دلیل پیش کی کہ وقف کے رجسٹریشن کے نام پر ایک طرح کی دہشت پیدا کی جا رہی ہے۔ جہاں متعلقہ شخص یا ادارہ کو بار بار رجسٹریشن کرانے دفتر جانا ہوگا۔ سنگھوی نے سروے اور اس کے بعد حکومت کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار پر بھی سوال اٹھائے۔
دلیل نمبر 3: ایڈووکیٹ سنگھوی کی دلیل یہ بھی تھی کہ ’وقف بائی یوزر‘ یعنی استعمال کی بنیاد پر وقف مانی جانے والی بیشتر جائیدادوں کا کہیں کوئی رجسٹریشن نہیں ہے۔ اب ان جائیدادوں کو ایک طرح سے انصاف مانگنا ہوگا۔ کوئی بھی آنے والے دنوں میں تنازعہ کھڑا کر سکتا ہے، اور اس طرح وقف کا درجہ ختم ہو سکتا ہے۔
دلیل نمبر 4: ایڈووکیٹ سنگھوی نے یہاں تک کہا کہ نئی ترمیم کا سیکشن 3 ڈی چونکہ قدیم یادگاروں کے لیے بنے قوانین پر بھی نافذ ہوتا ہے، اس کا اثر ان مذہبی مقامات پر بھی پڑ سکتا ہے جو اب تک ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ کسی ایک مذہب سے منسلک جائیداد کے لیے اس طرح کا انتظام کرنا آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔
دلیل نمبر 5: سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھون نے عرضی دہندگان کی طرف سے کہا کہ مذہبی ملکیتوں کی تعریف کو برطانوی دور میں بھی نہیں بدلا گیا۔ ہم ایک سیکولر ملک ہیں۔ میرا ایک موکل جو سِکھ ہے، وہ وقف کرنا چاہتا ہے، لیکن اس قانون کے بعد کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ اس طرح تو عدالتوں نے جو بھی سیکولر فیصلے اب تک دیے ہیں، وہ ایک جھٹکے میں ختم ہو جائیں گے۔
دلیل نمبر 6: ایڈووکیٹ دھون نے واضح کیا کہ وقف اور اس سے جڑے قدیم قوانین پر کئی آئینی بنچ فیصلے دے چکی ہیں۔ چاہے وہ بابری مسجد کا معاملہ ہو یا پھر کوئی دوسرا۔ سبھی معاملوں میں وقف بائی یوزر یعنی استعمال کی بنیاد پر وقف ملکیت بنے رہنے کا فیصلہ یہی عدالت دے چکی ہے، پھر اب یہ نیا کیوں؟
دلیل نمبر 7: کپل سبل نے اے ایس آئی کی ویب سائٹ پر موجود ایک فہرست دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب وہ محفوظ ہو جاتے ہیں تو اس کا وقف کا درجہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں جامع مسجد سنبھل بھی شامل ہے۔ اس لیے کوئی بھی تنازعہ اٹھے گا اور پھر اس جگہ کا وقف درجہ ختم ہو جائے گا۔
دلیل نمبر 8: آج کی سماعت کے دوران جب ملک کے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ مجموعی طور پر 3 موضوعات ہیں، جن پر روک کا مطالبہ کیا گیا ہے، تو سبل نے کہا کہ صرف 3 موضوعات نہیں ہیں۔ پورے وقف پر قبضہ کا معاملہ ہے۔ ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ قانون کا مقصد وقف پر قبضہ کرنا ہے۔ قانون اس طرح بنایا گیا ہے کہ وقف جائیدادوں کو بغیر کسی طریقۂ کار پر عمل کیے چھین لیا جائے۔
دلیل نمبر 9: ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ وقف جائیدادوں کے انتظام کا حق چھین لیا گیا ہے۔ مرکزی وقف کونسل کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہیں۔ نئے قانون کی دفعہ 9، اس میں 12 غیر مسلم اور 10 مسلم ہیں۔ پہلے یہ سبھی مسلم تھے۔ اب یہ سبھی نامزد ہیں۔
دلیل نمبر 10: پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے کے التزام پر ایڈووکیٹ حذیفہ احمدی نے سخت اعتراض ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ کس طرح طے ہوگا کہ مجیں اسلام مذہب پر عمل کرتا ہوں یا نہیں؟ کیا کوئی مجھ سے یہ پوچھ کر طے کرے گا کہ میں 5 وقت کا نماز پڑھتا ہوں یا نہیں۔ یا پھر کوئی یہ پوچھے گا کہ میں شراب پیتا ہوں یا نہیں، کیا اس طرح سے طے کیا جائے گا؟