Saturday, December 21, 2024
homeتجزیہدلت مسلم و عیسائی کوٹہ:کیا 70برسوں کی نا انصافیوں کا ازالہ ہوپائے...

دلت مسلم و عیسائی کوٹہ:کیا 70برسوں کی نا انصافیوں کا ازالہ ہوپائے گا؟

سابق چیف جسٹس انڈیا کے جی بالاکرشنن کی قیادت میںدلت مسلم اور عیسائیوں کی سماجی و معاشرتی جائزہ کیلئے کمیشن کا قیام
70سالہ نا انصافیوں کے تدارک کیلئے کمیشن سفارشات کرے گی یایہ حکومت کا تاخیری حربہ

نور اللہ جاوید

5اکتوبر کو عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی اور دہلی حکومت میں وزیر راجندر پال گوتم کی موجودگی امبیڈکر بھون دہلی میں دلت ہندئوں کو بابا صاحب امبیڈکرکے 22پرتیگیائوں کے حلف کی تقریب نے قومی راجدھانی میں ہنگامہ برپا کردیا۔ ’’ہندئوںکے خلاف سازش ‘‘ کے پرانےالاپ الاپے جانے لگے۔شور و ہنگامہ اس قدر شدید تھا کہ اگلے دو دن میں راجندر پال گوتم کو کجری وال کی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔عام آدمی پارٹی جنہیں راجندپال کی حمایت کرنی چاہیے مگر اس نے بھی گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کی خاطراس پورے معاملے میں خاموشی اختیار کرکے یہ واضح کردیا کہ سماجی اور معاشرتی مسائل سے اس کو کوئی سروکار نہیں ہے۔عام آدمی پارٹی بھی بی جے پی کی طرح اکثریت نواز سیاست کی حامی ہے۔چناں چہ سماجی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے عام آدمی پارٹی بیشتر مواقع پرخاموشی اختیار کرجاتی ہے۔اسی ہنگامہ کے درمیان دہلی کے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ پریش صاحب سنگھ ورما مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے نظر آئے۔دوسری طرف بی جے پی کے ممبر اسمبلی نند کشور گوجر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نظرآئے۔وشوہندپریشد کے پروگرام میںوہ فروری 2020 میں رونماہوئے شمالی دہلی فسادات میں اپنے رول کا اعتراف کرتے ہوئےکہا کہ انہوں نے ہی ڈیڑھ لاکھ ہندئوں کو دہلی لاکر انہیں(مسلمانوں) سبق سکھایا اورہم ان جہادیوں کوآئندہ بھی ماریں گے‘‘۔بی جے پی لیڈروں کے نفرت اگلتے ہوئے بیان پر نوٹس لینے کے بجائے دہلی پولس عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی و سابق وزیر راجندر گوتم پال سے پوچھ تاچھ کرکے ہزاروں ہندئوں کے بابا صاحب کے 22پرتیگیائوں کے پیچھے سازش کا پتہ لگارہی تھی۔دس گھنٹے پولس اسٹیشن میں گوتم کو بیٹھا کر پوچھ تاچھ کی گئی ۔ان پر ہندئوں کے خلاف ساز ش کرنے کا اعتراف کرنے کےلئے دبائو بنایا گیا۔مگر ان دونوں نفرتی لیڈروں کے خلاف کوئی نوٹس لیا۔۔دراصل یہ ہندوستانی سماج میں بھید بھائو ، تعصب اور نسلی امتیازات کا یہ بدترین نمونہ ہے۔اجندر گوتم کا تعلق نچلی ذات سے ہے اس لئے ان کے خلاف فوری کارروائی شروع کردی گئی۔قتل عام کی عام دھمکی اور مسلمانوں کے بائیکاٹ کرنے والوں کا تعلق ہندئوں کے ایلیٹ کلاس سے تھااس لئے انہیں نوٹس دینا بھی مناسب نہیں سمجھاگیا۔
سماجی نا انصافی ، تعصب اور بھید بھائو کے خاتمے مساوات اور برابری کا احساس دلانے اور یکساں مواقع فراہم کرنے کےلئے ہی ملک میں ریزرویشن کا نفاذ کیا گیا تھا۔مگر 75برس بیت جانے کے باوجود آج بھی ملک میں دلت طبقے کے خلاف ظلم و زیادتی کاسلسلہ جاری ہے ۔صدرجمہوریہ کے منصب جلیل تک پہنچنے کے باوجود ایک دلت صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کومندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ملک کے باوقار عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود جب انہیں سماجی انصاف نہیں مل رہا ہے تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟چناں چہ آج بھی بہار، یوپی، راجستھان ، گجرات اور دیگر ریاستوں میں دلتوںکو گھوڑے پر بارات لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔یہاں تک کہ دلتوں کےلئے مونچھ رکھنا جرم ہے۔ یہ اعلیٰ ذات کے ہندئوں کا شیوہ ہے ۔راجندر پال گوتم کو درد و کرب کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ’’ وہ ہمیں نہ ہندو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انسان، اگر ہمیں انسان سمجھا جاتا تو ہمیں مندر میں جانے کی اجازت ہوتی،مونچھ رکھنے پر ہمارے نوجوانو ں کے ساتھ مارپیٹ نہیں ہوتی۔ہمارے بچوں کو اسکولوں سے نہیں نکال دیا جاتا ‘‘۔آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت اسی ہفتے’’ ہندو سماج میں ذات پات ، بھید بھائو اور چھوت چھات کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے بزرگوں کی غلطیوں کا اعتراف کرکے ’’ورنا‘‘ کا نظام ہمیشہ کےلئے ختم کردیں‘‘۔بھاگوت کے اس بیان نے قومی میڈیا میں خوف سرخیاں بٹوریں اور اس کو ایک نئی شروعات سے تعبیر کیا گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آر ایس ایس ’’ورنا‘‘ کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہے ؟۔بھاگوت سے قبل آر ایس ایس کے ایک اور سرسنچالک بالا صاحب دیورس نے بھی ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کی بات کہی تھی ۔ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب ’’پنچ آف تھائوٹ میں بھی ذات پات کی تفریک کے خاتمے کی بات کہی۔مگر ان بیانات کا کیا حاصل ہوگیا۔کیا سماجی نا ہمواری اور ظلم و زیادتی کا سلسلہ روک گیا۔ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔

سماجی بھید بھائو اور ذات پات کی تفریق اور نسلی منافرت کا خاتمہ کرنے والے اسی ساورکر کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں جنہوں نے ذات پات کی تفریق کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ بھید بھائو او ر چھوت چھات کا نظام نہیںہوتا توآج مسلم اور عیسائی درانداز کا ہم مقابلہ نہیں کرپاتے ۔آج بھی منوسمرتی (مذہبی کتاب)ان کےلئے مقدس ہے جس میں سماجی تفریق اور طبقاتی نظام اور بھید بھائو کی تعلیم دیتا ہے۔آر ایس ایس کے قول و عمل میں تضاد کا اندازہ لگانے کےلئے 13سال کی عمر 1987میں آر ایس ایس کی ’رام جنم بھومی ‘تحریک میں شامل ہونے راجستھان کے ایک دلت خاندان سے تعلق رکھنے والے بھنور میگھونشی کی خود نوشت کتاب’’I Could No Be Hindu‘‘(میں ہندو نہیں ہوسکتا)کا مطالعہ کرنی چاہیے۔بھنور میگھونشی بتاتے ہیں کہ’’ وہ رام مندر کی تعمیر اور ہندوراشٹرکے قیام کےلئے 13سال کی عمر سے ہی شامل ہوگیا تھااور اس کےلئے جان کی بازی بھی ہارنے کو تیار تھے ۔آر ایس ایس میں وہ تیزی سے ترقی کررہے تھے اور کم عمر میں ہی ضلع انچارج بھی بنادئیے گئے مگر ان کے گھر کے کھانا کو اعلیٰ ذات کے سیوک سنگھ جو رات دن ان کے ساتھ مل کر ہندو راشٹر کے قیام کےلئے بات کرتے تھےاس لئے پھینک دیا کہ یہ کھانا ایک دلت کے گھر تھا‘‘۔اس واقعے نے بھنور میگھونشی کو اس قدر دل برداشتہ کردیا کہ وہ آر ایس ایس سے دور ہوتے چلے گئے اور آج امبیڈکر وادی کے طور پر کام کررہے ہیں۔
دلت اور پسماندذات برادریکے ساتھ نا انصافی ، بھید بھائو کی تاریخ بھارت میں کئی صدیوں پر مشتمل ہے۔بابا صاحب امبیڈکرکہتے ہیں کہ ’’ذات پات کی تفریق کے بغیر ہندو سماج زندہ ہی نہیں رہ سکتا ہے۔چناں چہ کئی سالوں تک ذات پات کی تفریق کے خاتمے کےلئے تحریک چلانے کے بعد امبیڈکر اس نتیجے پر پہنچے ہندو رہ کراس تفریق کا خاتمہ نہیں کرسکتے ہیں ۔اس لئے بابا صاحب امبیڈکرنے 14اکتوبر 1956کو ناگ پور میں 3,50000دلتوں کی موجودگی بدھ مذہب اختیار کرلیا۔بھارت میں اجتماعی تبدیلی مذہب کی یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔اعلیٰ ذات کے ہندئوں کے مظالم و زیادتی سے تنگ آکر ہندوستان کی آزادی سے قبل بھی اور بعد میں بھی بڑے پیمانے پر دلت عیسائی ، اسلام، بدھشٹ مذہب اختیار کرتے رہے ہیں۔مگر تبدیلی مذہب کے واقعات کے اسباب اور اس کی وجوہات کے خاتمے کےلئے سنجیدہ کوششیں کرنے کے بجائےتبدیلی مذہب کے واقعات کو سیاسی پروپیگنڈے اور مواقع کے طور پر استعمال ہونے لگتا ہے۔مشہور صحافی سعید نقوی اپنی خودنوشت ”Being The Other:The Muslim in India”میں فروری 1981میںجنوبی ریاست تمل ناڈو کے میناکشی پورم میں 558دلت ہندئوں کے اجتماعی طور پر دلت ہندئوں کے مسلمان ہونے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب کے ہر واقعے کے بعد ہندو لیڈرسرپر طوفان اٹھالیتے ہیں مگر اس کے سماجی اسباب اور وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں آج تک ہندئوں نے جنتن نہیں کیا۔آج بھی ذات پات ، چھوت چھات اور بھید بھائو جیسی سماجی لعنت عفریت بن کربھارتی سماج کو برباد کررہا ہے۔یہ مسئلہ آج بھی زندہ ہے۔
2007میں اسٹالن کے کی ہدایت کاری میں بننے والی دستاویزی فلم ’’انڈیا انٹچڈ‘‘بھارت میں ذات پات پر مبنی تعصبات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس دستاویزی فلم کے ایک دہائی سے زاید کا عرصہ بیت جانے کے بعداسٹالن کے کہتے ہیں ’’ ذات پات کی بنیاد پر امتیاز آج بھی ہندوستان میں عام ہے۔ گجرات، کیرالہ اور تمل ناڈو کی ریاستوں میں دلت اور غیر دلت عیسائیوں کے لیے الگ الگ چرچ موجود تھے۔ الگ الگ قبرستان بھی ہیں ۔ گجرات میں، ونکر، والمیکی اور دیگر دلت برادریوں سے عیسائیت اختیار کرنے والےعیسائیوں کو پٹیل اکثریتی علاقے میں مکان حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ریاست کیرالہ میں عیسائیت کے مذہب کی پیروی بائبل سے کم اور ذات پات کے شعور سے زیادہ ہے۔ پلایا عیسائیوں اور پرایا عیسائیوں کے لیے مختلف چرچ ہیں۔دلت مسلمان ہندوستان کے تمام حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلمان بھی ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ خان، شیخ، سید، اور پٹھان برادری سے تعلق رکھنے والے ناٹ، پمادیہ، ہلالکھور، بھنگی، بھٹ اور دھوبی مسلم برادریوںسے خود کو الگ تسلیم کرتے ہیں اور اشراف و ارذال کے طور پر تقسیم کرتے ہیں۔یعنی دلت برادری کے دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے بعد بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا ہے۔ فرسٹ بیک ورڈ کلاس کمیشن، جسے کاکا کالیلکر کی سربراہی میں کالیلکر کمیشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے 1955 میں سفارش کی تھی کہ ’’ذات کی بیماری کے مارے جانے سے پہلے، اس کے بارے میں تمام معلومات کو طبی ریکارڈ کی طرح سائنسی انداز میں ریکارڈ اور درجہ بندی کرنا ضروری ہے‘‘ ۔1969 میں، پہلی پارلیمانی کمیٹی برائے اچھوت، اقتصادی اور تعلیمی ترقی درج فہرست ذاتوں نے طے کیا کہ ’’تمام درج فہرست ذاتیں جو ہندو مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کو قبول کرتی ہیں، درج فہرست ذاتوں کو دستیاب تمام رعایتیں دی جانی چاہئیں‘‘۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 341 صدر جمہوریہ کو مختلف ذاتوں اور قبائل کے ناموں کو خصوصی فہرست ذات (شیڈول کاسٹ)میں شامل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔1950 میں اس وقت کے صدر نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک شیڈول جاری کیا۔جس میںشیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والوں کو ہندو مذہب سے خاص کردیا۔یعنی مذہب ترک کردینے والےدلت شیڈول کاسٹ کی فہرست سے نکل جائیں گے ۔اس آرٹیکل میں دو اہم دفعات ہیں، پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ صدر عوامی نوٹیفکیشن کے ذریعے ریاست یا مرکز کے زیر انتظام علاقے کی کسی بھی ذات کو درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل میں شامل کر سکتے ہیں۔جبکہ اس کی دوسری شق میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ صدر کے عوامی نوٹیفکیشن کے ذریعے درج فہرست ذاتوں یا قبائل میں شامل کسی بھی ذات یا برادری کو اس فہرست سے خارج کر سکتی ہے۔حیرت انگیز بات ہے کہ اس وقت امبیڈکر زندہ تھے انہوں نے اس کے خلاف احتجاج نیں کیا؟ اس سے متعلق واضح اشارے ماضی کی تواریخ میں نہیں ملتے ہیں ۔تاہم بعد میں سکھ برادری کے مطالبات پر1956 میں ایس سی کوٹہ سے فائدہ اٹھانے والوں میں دلت نسل کے سکھ کو شامل کردیا گیا۔1990میں بدھشٹوں کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے دلت بدھشٹوں کو بھی درج فہرست ذاتوں میں شامل کردیا گیا۔یعنی اب شیڈول کاسٹ ہندو ، سکھ اور بدھشٹ کو ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے۔
1950میں صدر جمہوریہ کا یہ آرڈی نینس بھارت کے آئین کے روح کے مخالف ہے۔بھارتی آئین مذہبی بنیادوں پر تفریق کا حامی نہیں ہے۔نہ ہی مذہبی بنیاد پر وہ ریزرویشن کی سفار ش کرتا ہے۔اس کے باوجود 1950میںشیڈول کاسٹ میں شامل ہونے والے ذات اور برادری کے تعین کرتے وقت مذہبی تفریق کو پیش نظر رکھا گیا۔ظاہر ہے کہ یہ سراسر آئین مخالف قدم تھا۔اس کے پیچھے یہ دلیل دی جاتی رہی کہ چوں کہ اسلام یا عیسائیت اختیار کرنے کی وجہ سے دلتوں کی سماجی ، معاشرتی صورت حا ل تبدیل ہوجاتی ہے، وہ چھوت چھات اور بھید بھائو سے آزاد ہوجاتے ہیں ۔مگر ماہرین بتاتے ہیں کہ اس کے پیچھے اصل وجہ کچھ اور ہے۔اسلام اور عیسائیت کو اس میں شامل نہیں کرنے کے پیچھے اصل حکمت عملی تبدیلی مذہب کو روکنا تھا۔کم سے کم ریزرویشن کے بہانے کوئی بھی دلت اسلام یا عیسائیت کو اختیار نہیں کرے گا۔1950کے صدر جمہوریہ کے آرڈی نینس کو 72سال بیت چکے ہیں ۔گزشتہ 72سالوںشیڈول کاسٹ میں شامل ہونے کےلئے مسلم دلت اور عیسائیوں کی تنظیمیں جدو جہد قانونی اور جمہوری کوششیں کررہی ہیں۔جسٹس سچر کمیٹی اور جسٹس رنگا ناتھ مشرا کمیشن نے مسلم دلت اور دلت عیسائیوں کےلئے ریزرویشن کی سفارشات کی ۔ان دونوں کمیشنوں کی رپورٹ کے عام ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں مختلف تنظیموںاور افراد نے ’’ریزرویشن کو مذہبی غیر جانبدار‘‘ بنانے کےلئے عرضیاں دائر کیں۔جنوری 2020 میںسپریم کورٹ آف انڈیا کے جسٹس سنجے کشن کول، اے ایس اوکا اور وکرم ناتھ کی بنچ نے کہا کہ’’وہ دن آ گیا ہے کہ ریزرویشن کو ’’مذہبی غیر جانبدار‘‘بنایا جائے ‘‘ اس کے لیےان عرضیوں پر غور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔30اگست 2022کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے تین ہفتے میں اس معاملے میںموقف پیش کرنے کی ہدایت دی ۔11اکتوبر کو اس معاملے کی سماعت ہونی تھی مگر 6اکتوبر کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن کی قیادت میں تین رکنی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کردیا۔اس کمیٹی میں سابق آئی اے ایس آفیسر ڈاکٹر رویندر کمار جین اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی رکن پروفیسر سشما یادو شامل ہیں۔سماجی انصاف اور اختیارات کی مرکزی وزارت نے کہا کہ کمیشن ایک دلت شخص کے عیسائیت یا اسلام قبول کرنے کے بعد ہونے والی تبدیلیوں اور انہیں شیڈول کاسٹ کے زمرے میں شامل کرنے کے وسیع اثرات کا جائزہ لے گا۔وزارت کی جانب سے جاری ریلیز کے مطابق ’’یہ مسئلہ بنیادی اور تاریخی طور پر پیچیدہ ہے،سماجی اور آئین کو متاثر کرنے اور عوامی اہمیت کا ایک یقینی معاملہ ہے‘‘۔دلت جو صدیوں سے چھو ت چھات کے شکار رہے ہیں ۔گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران عیسائیت اور اسلام کو قبول کیا ہے۔کمیٹی کو دوسالوں میں رپورٹ پیش کرنے کا وقت دیا گیا۔ظاہر ہے کہ اب اگلے دو سالوں کےلئے اس مسئلے پر عدالت میں کوئی سماعت نہیں ہوگی ۔شیڈول کاسٹ کی فہرست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو شامل کرنے کی شدید مخالفت کرنے والی بی جے پی حکومت جس نے رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو رد کردیا تھا۔جس نے 2019میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ مسلم اور عیسائی دلت کو شیڈول کاسٹ کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان دونوں مذاہب میں سماجی تفریق اور چھوت چھات نہیں ہےکے ذریعہ دلت مسلم اور عیسائیوں کی سماجی و معاشرتی صورت حال کا جائزہ لینے کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ حیرت انگیز ہے۔اس کو بی جے پی کے بدلتے سوچ کی عکاسی کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ حیدرآباد میں پارٹی کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم مودی کے ذریعہ پارٹی لیڈروں کو پسماندہ مسلمانوں کی طرف دیکھنے کی اپیل کوعملی شکل کے طور پراس کو دیکھ رہی ہے۔تاہم کچھ سیاسی تجزیہ نگاراور دلت عیسائی اور مسلم کو شیڈول کاسٹ کی فہرست میں شامل کرنے کےلئے جدو جہد کرنے والے سماجی کارکنان کمیشن کے قیام کو تاخیری حربے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔شیڈول کاسٹ کی فہرست میں مسلم اور عیسائی دلت کو شامل کرنے کی کوئی بھی کوشش دلت ہندو، سکھ اور بدھشٹوں کو نظرانداز کرسکتی ہے ۔کیوں کہ اس قدم سے ان کی حصہ داری کم ہوسکتی ہے۔ایسےوقت میں جب حکومتوں کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیتیں محدود ہورہی ہیں تو یہ مسئلہ مزیدپیچیدہ بن جاتا ہے۔چناں چہ کمیشن کی رپورٹ ایسے وقت میں آئے گی جب 2024میں لوک سبھا کے انتخابات مکمل ہوچکے ہوں گے اور لبرل جج کے طور پر شہرت حاصل کرچکے اگلے چیف جسٹس چندر چوڑ ریٹائرڈ ہوکر گھر جاچکے ہوں گے ۔جسٹس چند ر چوڑ نے ہی مرکز کوپینل قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، یہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ لیکن یہ اگلی حکومت اور چندر چوڑ کے جانشین پر منحصر ہے کہ وہ اس پیچیدہ مسئلے ور الجھے سوالات کو کس طرح حل کرتے ہیں۔حکومت کی نیت پراس لئے بھی سوال کھڑے ہورہے ہیں کہ سچر کمیٹی اور رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات اوردیگر کمیٹیوں کی رپورٹیں و سفارشاہونے کے باوجود حکومت کا یہ دلیل دینا کہ دلت مسلم اور عیسائیوں کے جائزہ پر مبنی کوئی حتمی رپورٹ نہیں ہے۔
دلت مسلم اور عیسائیوں کی سماجی اور معاشرتی صورت حال
اسلام اور عیسائیت میںذات پات کی تفریق ، چھوت چھات اور بھید بھائو کےلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔تاہم بھارتی سماج کے اکثریتی طبقے میں ذات پات ، چھوت چھات اور بھید بھائو کی تفریق کا ماحول رہا ہے۔اکثریتی طبقے کی تہذیب و کلچر اور روایات کے اثرات سے اقلیتی طبقات بھی متاثر ہوتے ہیں اور اس کے رسم و رواج کسی نہ کسی صورت میں اقلیتی طبقات میں در کرجاتے ہیں ۔چناں چہ رنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے قبول کرنے کے باوجود ان دلتوں کی سماجی اور معاشرتی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ریزرویشن سے محروم رہنے کی وجہ سے صورت حال میں ابتری ہی آئی ہے۔2008 میںقومی اقلیتی کمیشن نے ماہر عمرانیات اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ستیش دیش پانڈے اور گیتیکا بپن کودلت مسلم اور عیسائیوں کی سماجی صورت حال کا جائز لینے کی ذمہ داری دی گئی۔ان دونوں شخصیات نے ’’دلت مسلم اور عیسائی کمیونٹیز:موجودہ سماجی سائنسی علوم کی روشنی ‘‘ کے عنوان سے مشترکہ طور پررپورٹ تیار کی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلم طبقے میں ’دلت مسلم کی تعداد 8فیصد کے قریب ہے۔عیسائیوں میں دلت عیسائیوں کی تعداد 23.5فیصد کے قریب ہے۔ دیہی ہندوستان میں39.6فیصد دلت مسلمان خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں ۔شہری علاقوں میں 46.8فیصد دلت مسلمان خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ دلت عیسائی بالترتیب دیہی اور شہری علاقے میں 30.1فیصد اور 32.3فیصد زندگی گزارتے ہیں ۔ دیہی ہندوستان میں29.2فیصد مسلمان اور شہری علاقوں میں41.4فیصد مسلمان بی پی ایل ہیں۔جب کہ عیسائی دیہی علاقوں میں 16.2فیصد بی پی ایل زمرے میں ہیں جب کہ شہری علاقوں میں 12.5عیسائی بی پی ایل زمرے میں ہیں۔سچر کمیشن کی رپورٹ نے 2006 میں مشاہدہ کیا کہ تبدیلی مذہب کے بعدبھی دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کی سماجی اور معاشی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ 2007 میں، جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ آئین (شیڈولڈ کاسٹ) آرڈر، 1950 میں نظرثانی کی جائے تاکہ ایس سی کی حیثیت کو مذہب سے آزاد کردیا جائے، اور تمام دلتوں اور درج فہرست قبائل کو مذہب سے غیر جانبدارانہ درجہ دیا جائے۔ اس نے 27 فیصد کے او بی سی کوٹہ کے اندر اقلیتوں کے لیے 8.4فیصد کا ذیلی کوٹہ اور 15 فیصد کے درج فہرست ذات کے کوٹہ کے اندر دلت اقلیتوں کے لیے ریزرویشن کا بھی مشورہ دیا۔مشرا کمیشن کی رپورٹ اور اقلیتوں کے قومی کمیشن کی رپورٹ دسمبر 2009 میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ دونوں رپورٹ میں دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کو آئینی تحفظ اور تحفظات دینے کی سفارش کی گئی تھی۔تاہم حکومتوں نے ان سفارشات پر عمل نہیں کیا۔مرکزی حکومت نے دلیل دی کہ دلت مسلم اور عیسائیوں سے متعلق مختلف اعداد و شمار کی کمی ہے۔دوسری جانب منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے 20 ریاستوں نے او بی سی زمرے کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو فوائد فراہم کیے ہیں۔ صرف مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے فوائد سے مسلم اور عیسائی دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کرنا بھارت کے آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 16 کے برابری کے دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ریزرویشن، آئین کے مطابق، سماجی حیثیت، کمیونٹی میں کھڑے ہونے، پسماندگی، امتیازی سلوک، تشدد اور سماجی ناہمواری جیسے معیار پر انحصار کرتا ہے۔
گزشتہ 16سالوں سے دلت عیسائیوں کو آئینی حقوق کےلئے جدو جہد کرنے والے مسیحی وکیل فرینکلن سیزر تھامس ہفت روزہ دعوت سے کہتے ہیں کہ ’گزشتہ 70سا لو ں سے ہمیں اپنے آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے،وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسائی مذہب ذات پات کی تبلیغ نہیں کرتا لیکن یہ عیسائی ہیں جو اب بھی ذات پات پر عمل کرتے ہیں اور دلت برادریوں کے لوگوں پر ظلم اور امتیاز کرتے رہتے ہیں۔تمل ناڈو میں پرائیار کمیونٹی میں ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے مسٹر تھامس کا کہنا ہے کہ ان کے دادا ایک قصاب تھے جو چمڑے کی تجارت کرتے تھے اور ساتھی گاؤں والوں کی طرف سے روزانہ امتیازی سلوک کا سامنا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب میں نے ابھی اپنا گریجویشن مکمل کیا تھا اور اپنی ماں کے آبائی علاقے میں ایک گروسری کی دکان پر گیا تھا تو چیٹیار دکان کے مالک نے میرے پیسے صرف اس لیے پھینک دیے تھے کہ میں نے اس کا ہاتھ چھو لیا تھا۔انجینئرنگ سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود وہ ناانصافی سے لڑنے کے لیےقانون کی تعلیم حاصل کی اور اب قانونی جنگ لڑرہے ہیں۔تھامس کہتے ہیں کہ کمیشن کی تشکیل کے پیچھے حکومت بدنیتی شامل ہیں ۔کیوں کہ متعدد مطالعات اور کمیشنوں بشمول منڈل ،سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن کی سفارشات موجود ہیں جس میں دلت برادریوں سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایس سی کا درجہ دینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ گیا کیونکہ وہ بدستور امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایس سی کی حیثیت کے ساتھ، وہ تعلیم، سرکاری ملازمتوں، پارلیمانی اور پنچایتی انتخابات کے لیے کوٹہ کے فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام ایکٹ) 1989 کے تحت تحفظ حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔تھامس کہتے ہیں بھارت میں تقریباً 70 فیصد مسیحی آبادی کا تعلق شیڈول کاسٹ کے پس منظر سے ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات ستیش دیش پانڈےجو تین دہائیوں سے زائد عرصے سے ذات پات اور طبقاتی عدم مساوات کا مطالعہ کر رہے ہیں اور تین کتابوں کے ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں،نے2008 میں قومی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے زمروں کو ذیلی درجہ بندی کیا جانا چاہیے تاکہ ان میں سے زیادہ پسماندہ گروہ زیادہ فوائد حاصل کر سکیں۔ دیش پانڈے نے خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقتصادی طور پر کمزور طبقے کے لیے ریزرویشن ’’آئینی تحفظ‘‘فراہم کرتی ہے۔صرف تبدیلی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن سے محروم کردئیے جانے سے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔2008 کی رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ دلت مسلم اور دلت عیسائیوں کو درپیش امتیازی سلوک کے بارے میں کافی سماجی و سائنسی ثبوت موجود ہیں۔ معاشی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی برادریوں کے دوسرے طبقات سے بدتر ہیں ۔وہ غریب یا پسماندہ لوگوں میں زیادہ نمائندگی کرتے ہیں اور غربت یا پسماندگی کے تمام روایتی اقدامات کے ذریعہ مراعات یافتہ افراد میں کم نمائندگی کرتے ہیں۔انہیں ریزرویشن سے محروم کردینے کا موجودہ موقف متضاد اور غیر منصفانہ ہے۔ اگر بدھ مت اور سکھوں کےلئے،غیر ہندو مذاہب کے طور پر تسلیم کیے جانے کے باوجود ریزرویشن حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تو پھر عیسائیوں اور مسلمانوں کو ’’ریزرویشن‘‘سے کیوں محروم کا گیا ہے۔کیا صرف اس کے پیچھے ان دونوں مذاہب کے ’’غیر ہندی ‘‘ہونا وجہ ہے۔مگران دونوں مذاہب کی جڑیں ہندوستان میں گہری ہیں۔ شمالی ہندوستان میں مذہب تبدیل کرنے والے زیادہ تر دلت نچلی – اور اکثر سب سے نچلی ذاتوں میں سے ہیں۔اعلیٰ ذاتوں میں سے شاید ہی کوئی مذہب بدلنے والا ہو۔ جنوب میں، مذہب تبدیل کرنے والوں کی ایک بڑی آبادی دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات میں سے ہے تاہم ایک خاصی تعداد اعلیٰ ذات سے بھی ہے۔
دلت مسلم اور عیسائیوں کو ایس سی میں شامل کرنے کی قانونی جدو جہد
دلت مسلم اور عیسائیوں کو ایس سی میں شامل کرنے کےلئے گرچہ 1950سے ہی آوازیں بلند ہورہی ہے۔مگر 1990کے بعد اس میں تیزی آئی ۔ متعدد پرائیویٹ ممبرز بل پارلیمنٹ میں لائے گئے۔ 1996 میں، آئین (شیڈولڈ کاسٹ) آرڈرز (ترمیمی) بل کے نام سے ایک سرکاری بل کا مسودہ تیار کیا گیا لیکن اختلاف رائے کے پیش نظر، اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔وزیر اعظم منموہن سنگھ کی سربراہی میں یو پی اے حکومت نے دو اہم پینل قائم کیے۔ اکتوبر 2004 میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن، جسے رنگناتھ مشرا کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور مارچ 2005 میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں سات رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی۔سچر کمیشن کی رپورٹ نے مشاہدہ کیا کہ تبدیلی مذہب کے بعد دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کی سماجی اور معاشی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ رنگناتھ مشرا کمیشن، جس نے مئی 2007 میں اپنی رپورٹ پیش کی، نے سفارش کی کہ ایس سی کی حیثیت کومکمل طور پر مذہب سے آزاد کردینا چاہیے۔مشرا کمیشن کی رپورٹ 18 دسمبر 2009 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی گئی ، لیکن ناکافی اعداد و شمار اور زمینی اصل صورت حال سے توثیق کے پیش نظر اس کی سفارش کو قبول نہیں کیا گیا۔
2011 میں نیشنل کمیشن فار شیڈول کاسٹ (NCSC) نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کو ریزرویشن فراہم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذہب تبدیل کرنے کے باوجود دلت چھوت چھات کے شکار ہیں تو انہیں ریزیرویشن دیا جانا چاہیے۔نیشنل کمیشن فار شیڈول کاسٹ نے حلف نامہ میں تسلیم کیا کہ مذہب تبدیل کرنے والوں کی حیثیت کے بارے میں ایک آزاد مطالعہ کی کمی ہے ۔مگر جب تک ایسا مطالعہ مکمل نہیں ہو جاتا، دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کو ایس سی زمرہ میں شامل کیا جائے۔
دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کی سماجی حیثیت کے بارے میں کسی جامع مطالعہ کی کمی کا حوالہ دے کر دلت مسلم و عیسائیوں کو ایس سی کے زمرے میں شامل کرنے کے سوال کو درکنار کرنے کی تمام کوششوں کے پیش نظر یہ اہم سوال ہے کہ دوسال بعد ہی سہی کیا سابق چیف جسٹس جے بالا کرشنن کی قیادت والی کمیشن 75سالہ آئینی محرومیوں کا ازالہ کرپائیں گے۔کیا وہ مذہبی تعصبات سے اٹھ کر دلت مسلم اور عیسائیوں کی معاشی پسماندگی کے خاتمے کےلئے اقدامات کرسکیںگے۔سابق چیف جسٹس کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے۔وہ کوئی آسانی سے ملک کے باوقار عہدوں میں سے ایک پر آسانی سے نہیں پہنچے ہوں گے۔قدم قدم پر انہیں بھید بھائو کا سامنا کرنا ہوگا۔کیا وہ اپنے دلت بھائیوں کے درد کو محسوس کرسکیں گے۔یہ وہ سوالات ہیں جس کے جوابات اگلے دو سال بعد ہی ہمیں ملیں گے۔گزشتہ 72سالوں سے جدو جہد کرنے والوں کو اب مزید دوسال انتظار کر نا ہوگا

متعلقہ خبریں

تازہ ترین