Monday, October 7, 2024
homeتجزیہاحمد سعید ملیح آبادی: ایک قد جو ہر اعزاز سے بڑا تھا

احمد سعید ملیح آبادی: ایک قد جو ہر اعزاز سے بڑا تھا

عبدالسلام عاصم

اردو صحافت کو محض ملی ترجمانی تک محدود کر دینے کی غیر صحتمند روش سے آخر دم تک نبرد آزما رہنے والے صحافی احمد سعید ملیح آبادی ہرگز کسی روایتی تعزیتی اظہارِ تعلق کے محتاج نہیں۔ راجیہ سبھا کی رُکنیت سے اُس ایوان کی قدر میں اضافہ ہوا تھا، اُن کا قد کسی بھی اعزاز سے بڑا تھا۔ صحافت کے میدان میں ان کی کاوشوں اور کامیابیوں کا کسی اخباری مضمون میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا، صرف ذاتی وابستگی بیان کی جا سکتی ہے۔
حقیقتاً وہ اردو صحافت کو اُس عہد میں بھی قاری سے شعوری طور پر مربوط رکھنے والے جیالوں میں پیش پیش رہے جب ملک تقسیم کے صدمے سے باہر نکلنے کی سخت جدوجہد کر رہا تھا اور پھر جب سیکولرازم کا نشہ اقتدار پسندوں کے سر چڑھنے لگا اور وہ جانے انجانے میں آمرانہ چالیں چلنے لگے تب بھی موصوف کا قلم کسی کی دھونس میں نہیں آیا۔ دائیں اور بائیں نظریات سے بنیادی اختلاف کے باوجود انہوں نے مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی سیاست کی وقتی ناگزیریت سے ہمیشہ اتفاق کیا اور خاص طور پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ جیوتی باسو کی سماج رُخی سیاسی سوچ کے وہ ہمیشہ قدر دان رہے۔
ملک میں کانگریس کی سیکولر قیادت کے قدم تو 1970 کی دہائی میں ہی لڑکھڑانے شروع ہو گئے تھے۔ اگر ہمسایہ پاکستان اپنے اعمال کی سزا کا مرحلہ بھی بے ہنگم طریقے سے نہیں گزارتا تو نہ بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان کو ناگزیر کردار ادا کرنا پڑتا او ر نہ اس طرح ملک کی داخلی سیاست میں اندرا گاندھی کو متعلقہ دہائی کے چوتھے مرحلے تک اپنے قدم جمائے رکھنے کی مہلت مل پاتی۔ 1980 کی دہائی میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے اردو صحافت کے کورس میں اگر احمد سعید ملیح آبادی صاحب مہمان مدرس کے طور پر ہماری شعوری تربیت نہ کرتے تو شاید ہم کسی عہد کے اس طرح کے واقعے یا بدلتے منظرنامے کو اتنی بے باکی سے بیان نہیں کر پاتے۔
میرے استاد اور سابق آجر سعید صاحب اردو صحافیوں کو محض واقعات اور سانحات نگاری تک محدود دیکھنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ صحافت کی سماجی ذمہ داری کو ہماری تربیت کا اہم حصہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اس پیشے سے وابستہ ہونے والاشخص اپنی فکری، معاشی، سماجی اور تہذیبی وابستگی کو اس طرح اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دے کہ پیشے سے اُس کی نسبت کا دائرہ اُس کی اپنی سوچ تک محدود ہو کر رہ جائے۔ وہ ارتقا ء پسند ذہن رکھتے تھے اور نئی نسل کو ذات اور کائنات دونوں سے فکری ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنے کی تحریک دیتے تھے۔ اِس رُخ پر اُن کے ایک سے زیادہ اداریوں کی شہادت پیش کی جاسکتی ہے۔ وہ ہمیں انگریزی اخبارات کے غیر سیاسی اداریوں اور مضامین کو حسبِ توفیق پڑھنے کی صلاح دیتے تھے اوربظاہر اُلجھی ہوئے تحریروں کو لغت کی مدد سے زیادہ پس منظر میں جا کر سمجھنے کی تلقین کرتے تھے۔ اغلب امکان ہے کہ اسی وجہ سے موجودہ نوجوان اردو صحافیوں کے مقابلے میں ہمارے عہد کے صحافی انگریزی خبروں کا کبھی لفظی ترجمہ نہیں کرتے تھے۔ ترجمہ شدہ خبر میں صرف روح پوری طرح سلامت رہتی تھی، قالب مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی تھی۔ مثلاً ہم لوگوں نے کبھی decision taken کا ترجمہ ’فیصلہ لیا‘ نہیں کیا۔ اسی طرح now the ball is in his court کا ترجمہ یوں کبھی نہیں کیا کہ ’گیند اب اُن کے پالے میں ہے‘ وغیرہ۔ اردو سمیت دنیا کی ہرزبان اپنے محاوروں اور کہاوتوں سے کم و بیش مالا مال ہے۔ البتہ زبانوں کے اختلاط سے ایک دوسرے کے الفاظ کا عام ہوجانا فطری ہے۔ مثلاً ابھی کل تک ہم نیتی آیوگ کو منصوبہ بندی کمیشن کے ساتھ ساتھ پلاننگ کمیشن بھی لکھا کرتے تھے۔ اسی طرح انگریزی میں arrangement کوbandobast بھی لکھا جاتا ہے۔
احمد سعید صاحب حقیقی تعلیم کے حصول کیلئے کبھی اسکول نہیں گئے۔ اعظم گڑھ میں مدرسے کی تعلیم کے دوران ہی تیرہ برس کی عمر میں اپنے والد عبد الرزاق ملیح آبادی کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کلکتے پہنچ گئے تھے۔ اُن کی غیر رسمی تعلیم میں بڑا دخل اُن کی چچی جان کا تھا۔ انگریزی انہوں نے گھر میں سیکھی تھی۔ عالمی صحافت سے انگریزی کے بغیر کماحقہ آگاہی ممکن نہیں، اس لیے سعید صاحب نے انگریزی محض اخباری کام چلانے کیلئے نہیں بلکہ عملاً جاننے اور سمجھنے کیلئے سیکھی تھی۔ اپنے اس جنون کے ابتدائی عہد کی کہانیاں سنانے میں انہوں نے بعض لغزشوں کو بھی ہم لوگوں سے بے جھجھک شیئر کیا۔
سعید صاحب واقعات اور سانحات کے حوالے سے معنی، مفہوم اور تناظر کو سمجھنے میں ذاتی فکری جھکاؤ کو کسی طرح دخیل دیکھنے کے حق میں نہیں تھے۔ بہ الفاظ دیگر وہ خبر (news) اور نظر(views) کے فرق کو بالکل واضح رکھنا چاہتے تھے۔ اُن کی اِس فکر کا حلقہ اُن کی ذات تک محدود نہیں تھا۔ ’روزانہ ہند‘ کے روشن خیال مدیر رئیس الدین فریدی، دو مختلف عہدِ اشاعت رکھنے والے یومیہ اخبار ’آبشار‘ کے لبرل ایڈیٹر ابراہیم ہوش اور دوسرے دور کے یساری سوچ رکھنے والے مدیر سالک لکھنوی کے علاوہ کئی دوسرے مستند صحافی بھی انہی خطوط پر سوچتے تھے۔ بدقسمتی یا بین فرقہ اطلاعات کی جگہ افواہوں کا ایک دوسرے کے بارے میں معلومات کا ذریعہ بن جانے کی وجہ سے ہر زبان کی عصری صحافت آلودہ ہو کر رہ گئی ہے۔یہ بٹوارہ در بٹوارہ کرنے والوں سے زیادہ المناک تقسیم کا صدمہ جھیلنے والے ہندوستانیوں کیلئے المیہ ہے۔
احمد سعید صاحب کی با محاورہ زبان اور اداریوں کے تو سبھی قائل ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو یہ پتہ ہے کہ وہ سنجیدہ ماحول کو ایکدم سے قہقہہ زار بنا دینے کا جز وقتی ہنر بھی جانتے تھے۔ اس کا اعتراف انہوں نے خود تو کبھی نہیں کیا لیکن ’آزاد ہند‘ کے ادارتی صفحے پر اس کی بھی ایک نہیں کئی گواہیاں موجود ہیں۔ ادارتی صفحے پر یومیہ مزاحیہ کالم ’’نمک دان: از میاں نمک پاش سلمہ‘‘ اور ہفت روزہ ’’نوک جھونک‘‘ راقم لکھنوی صاحب بحیثیت ملازم دفتر میں لکھا کرتے تھے اور احمد سعید صاحب کے چھوٹے بھائی طاہر سعید یہ کالم ملیح آباد سے لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ اگر کبھی دونوں اصحاب میں سے کوئی اس ضرورت کی تکمیل کیلئے بہم نہیں رہا تو یہ فرض خود سعید صاحب کو نبھانا پڑتا تھا۔ انہوں نے اس محاذ کو اپنے لیے اس طرح آسان بنالیا تھا کہ وہ جس موضوع کے کسی پہلو کا اداریے میں احاطہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے، اُس سے نمک دان میں استفادہ کرلیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ (اُس وقت کے ریاستی وزیر) کلیم الدین شمس نے کسی اہم تقریب کا افتتاح کیا تھا جس میں سعید صاحب بھی شریک تھے۔ سعید صاحب نے اگلے دن اسی تقریب کے حوالے سے اداریہ قلمبند کیا۔ اتفاق سے اسی روز نمک دان کیلئے مذکورہ دونوں لکھنے والوں میں سے کسی کی تحریر دستیاب نہیں ہوسکی۔ لامحالہ سعید صاحب کو ہی یہ محاذ بھی سنبھالنا پڑا۔ اس بار بھی انہوں نے اپنی وہی پالیسی اپنائی یعنی اداریہ میں جس بات کا ذکر مناسب نہیں تھا، اسے نمکدان میں پُر مزاح لہجے کا حصہ بنا دیا۔ بات تھی زبان پھسلنے کی۔ کلیم الدین شمس صاحب نے اپنی رواں بلکہ دھواں دھار تقریر میں elevationکو elimination کہہ دیا تھا۔ سعید صاحب نے اس کا ذکر اس قدردلچسپ پیرائے میں کیا کہ اکثر قاریوں کی ہنسی چہرے کا زاویہ بدلنے تک محدود نہیں رہی بلکہ پھسل کر ہونٹوں تک آ ہی گئی۔
’آزاد ہند‘ کی اشاعت کا بند ہونا اور اس کی فروختگی کی کہانی مبینہ طور پر نزاعی ہے۔ اس لیے اس کا ذکر میرے لیے غیر اخلاقی ہوگا۔ ایک باب تھا جو بند ہو گیا۔ زندگی کے آخری ایام میں گڑگاؤں میں سعید صاحب جب اپنی انتہائی عزیز چھوٹی بہن کی بیٹی غزالہ یاسمین کے یہاں جو اُن کی بڑی بہو بھی ہیں، قیام کرتے تھے تو فون پر مجھ سے اور میری اہلیہ ریحانہ فریدی سے اُن کا اکثر رابطہ رہا کرتا تھا۔ اس وقت ان کی گفتگو اور موضوعات میں زندگی کا وہ مفہوم سامنے آتا تھا جس کا کسی ناصح کی تقریر یا تحریر احاطہ نہیں کر سکتی۔
احمد سعید صاحب مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے قیام کے محرک بانیوں میں شامل تھے۔ اکیڈمی میں 1982 میں اردو جرنلزم کا پہلا ایک سالہ ڈپلوما کورس بھی انہی کی تحریک پر شروع ہوا جس کی ’اخبار مشرق‘ کے مدیر وسیم الحق، روزنامہ ’عکاس‘ کے مدیر کریم رضا مونگیری اور ہفت روزہ ’کسان مزدور‘ کے مدیر محمد امین نے عملاً تائید کی تھی۔ رئیس الدین فریدی اس کورس کے پہلے تدریسی سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔ مہمان مدرسین ملک کے تقریباً ہر اردو علاقے سے مدعو کیے جاتے تھے۔ ناچیز بحیثیت متعلّم اس کورس کا حصہ رہا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
salam.asim@yahoo.com

متعلقہ خبریں

تازہ ترین