سہیل انجم
اس ملک میں مسلمانوں کو کسی نہ کسی جذباتی معاملے میں الجھائے رکھنے کی ایک پرانی اور قبیح روایت چلی آرہی ہے۔ ایسے مسائل کبھی مسلم دشمن طاقتوں کی جانب سے پیدا کیے جاتے ہیں تو کبھی نام نہاد مسلمانوں کی جانب سے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملکی عدالتیں ایسے فیصلے سنا دیتی ہیں جو مسلمانان ہند کے اندر ایک ہیجان اور اضطراب پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
حالیہ دنوں کے واقعات پر اگر نظر ڈالیں تو وسیم رضوی نام کے ایک نام نہاد مسلمان نے قرآن مجید کی 26 آیات کو قرآن سے ہٹا دینے کی ایک اپیل سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ آیات تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں اور دہشت گرد گروپ جہاد کے سلسلے میں ان آیات کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کی اس بکواس اور ہرزہ سرائی کے خلاف پورے ملک کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ ایسے کسی بھی معاملے کے خلاف احتجاج کرنے کا حق مسلمانوں کو ہے اور انھیں کرنا بھی چاہیے۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کا احتجاج پرامن ہو اور کہیں بھی کوئی تشدد نہ ہو۔
یہ معاملہ جب روشنی میں آیا تو راقم الحروف کے ذہن میں خانۂ کعبہ پر ابرہہ کی لشکر کشی کا بدترین واقعہ تازہ ہو گیا۔ وہ خانۂ کعبہ کو ڈھانا چاہتا تھا۔ وہ لشکر لے کر مکہ مکرمہ کی جانب چل پڑا۔ مکہ سے کچھ پہلے ہی اس نے لشکر روک دیا اور قریش مکہ کے بہت سے جانوروں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ کے دادا عبد المطلب اس کے پاس گئے اور انھوں نے کہا کہ میرے وہ دو سو اونٹ جو تم نے پکڑ رکھے ہیں مجھے واپس کر دو۔ ابرہہ حیران ہوا کہ سردار مکہ کو خانۂ کعبہ کی نہیں اپنے اونٹوں کی پڑی ہے۔ عبد المطلب نے کہا کہ اونٹ میرے ہیں مجھے ان کی فکر ہے۔ خانۂ کعبہ اللہ کا گھر ہے وہ اس کی حفاظت کرے گا۔ اور پھر دنیا کی آنکھوں نے دیکھا کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کا کیا حشر ہوا اور خانۂ کعبہ پر حرف تک نہیں آیا۔
اسی طرح قرآن مجید بھی اللہ کا کلام ہے اور اس نے اس کی حفاظت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس نے جس طرح اپنے گھر کی حفاظت کی تھی اسی طرح اپنی کتاب کی بھی حفاظت کرے گا۔ کیا دنیا کی کوئی طاقت کروڑوں حفاظ کے دلوں اور ذہنوں سے قرآن مجید کے کسی ایک لفظ یا کسی ایک حرف کو بھی مٹا سکتی ہے۔ اس سے پہلے کلکتہ کے ایک ملعون چاند مل چوپڑہ نے بھی قرآن مجید کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ وسیم رضوی کو بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔
اس کے بعد اترپردیش کے ڈاسنہ کے ایک مندر میں ایک نابالغ مسلم لڑکے کے پانی پینے اور اسے زدوکوب کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اس مندر میں پہلے مسلمان بھی جاتے تھے۔ بلکہ خبروں کے مطابق مسلمانوں نے اس کی تعمیر میں مدد کی تھی۔ لیکن جب سے ایک نیا پجاری یتی نرسمہانند وہاں آیا ہے اس نے طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ اس کے وہاں آنے کے بعد اس مندر میں ایک بورڈ آویزاں کر دیا گیا اور مسلمانوں کے مندر میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ مسلمانوں کا مندر میں جانا ضروری نہیں لیکن اس سے اس پجاری کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی اس واقعہ کی گونج ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے اللہ کے رسول اور مذہب اسلام کی شان میں گستاخی کی۔ اور اب مسلمان اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ دہلی پولیس نے اس سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ لیکن پولیس کی غیر جانبداری کی پول بارہا کھلی ہے۔ یو پی کی پولیس بھی کچھ کم نہیں ہے۔ یوپی کے بعض علاقوں میں اس کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف ہی رپورٹ درج کر لی گئی ہے۔
اسی درمیان بنارس کی گیان واپی مسجد کے تنازع کے سلسلے میں وہاں کے سول جج آشوتوش سری واستو کا متنازعہ فیصلہ سامنے آگیا۔ انھوں نے ایک وکیل وجے شنکر رستوگی کی اس درخواست پر کہ گیان واپی مسجد وشوناتھ مندر کے ایک حصے کو توڑ کر تعمیر کی گئی ہے اور اس کے نیچے ایک طویل جیوترالنگم موجود ہے، مسجد کو ہندووں کے حوالے کر دیا جائے، مسجد کا سروے کرنے کا حکم سنایا ہے۔ یہ مقدمہ 2019 میں قائم کیا گیا تھا۔ حالانکہ ریاستی ہائی کورٹ نے اس کارروائی پر اسٹے دے رکھا ہے۔ اس کے باوجود سول جج نے حکم دے دیا کہ محکمہ آثار قدیمہ سروے کرکے دیکھے کہ کیا اس مسجد کے نیچے کوئی مندر ہے یا کسی مندر کو توڑ کر اسے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف بھی مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
حالانکہ یہ فیصلہ ایک ملکی قانون کے سراسر خلاف ہے۔ پارلیمنٹ نے 1991 میں پلیسز آف ورشپ ایکٹ کے نام سے ایک قانون بنایا تھا جس کے مطابق 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اب اسی شکل میں رہے گی۔ کسی بھی عبادت گاہ پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکے گا۔ اگر کہیں کوئی دعویٰ ہے تو وہ کالعدم ہو گیا یعنی ختم ہو گیا۔ البتہ بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔
لیکن سول جج نے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جج کو اس قانون کے بارے میں علم نہیں تو یہ فاضل جج صاحب کی شان میں گستاخی ہوگی۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ کیا انھیں بابری مسجد مقدمہ میں سنائے گئے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ کے فیصلے کا بھی علم نہیں تھا تو یہ بھی ان کی شان میں گستاخی ہوگی۔ ایک جج تمام قوانین کا ماہر ہوتا ہے۔ اس کی نظر تمام عدالتوں کے فیصلوں پر بھی ہوتی ہے اور جب وہ کسی معاملے میں اپنا فیصلہ سناتا ہے تو ماضی کے فیصلوں کی نظیریں بھی پیش کرتا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سول جج نے لاعلمی میں یہ فیصلہ سنایا ہے۔
بہرحال انھوں نے حکم دیا ہے کہ پانچ ممبران کی ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں دو ممبر مسلمان ہوں۔ معروف قانون داں پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ یہ با ت بھی غلط ہے کہ اس میں دو ممبر مسلمان ہوں۔ ان کے مطابق اگر ان دو ممبروں کو کسی بات کی سمجھ ہی نہ ہو تو پھر کیا فائدہ۔ اس سے بہتر ہے کہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ ماہرین کو اس میں شامل کیا جائے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ تو سروے کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کمیٹی بنانے کی۔ ان کا یہ فیصلہ 1991 کے قانون اور بابری مسجد معاملے میں سنائے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے دونوں کے منافی ہے۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ سول جج نے ایسا فیصلہ کیوں سنایا۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ ان کا تبادلہ ہو گیا ہے اور انھوں نے اس نچلی عدالت میں اپنی ڈیوٹی کے آخری دن یہ فیصلہ سنایا ہے۔ اس سے کچھ شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے بھی اپنی سبکدوشی سے عین قبل بابری مسجد کا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا۔ اس کے بعد سی بی آئی کی لکھنؤ کی عدالت نے بابری مسجد انہدام کے ملزموں کو اپنے فیصلے میں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ اس جج نے بھی اپنی مدت ملازمت کے آخری دن ہی یہ فیصلہ سنایا تھا۔
ماضی میں جھانکیں تو ایسے اور بھی فیصلے مل جائیں گے جن سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہوں۔ بابری مسجد کے معاملے میں تو جو کچھ اندرون خانہ ہوا تھا وہ بہت جلد سامنے آگیا۔ رنجن گوگوئی کو دو ماہ کے اندر ہی راجیہ سبھا کا رکن نامزد کر دیا گیا۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ مذکورہ دونوں ججوں کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ ہوا ہوگا، لیکن اس سے انکار نہیں کہ یہ فیصلے مشکوک ہیں۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس قسم کے فیصلے مودی حکومت میں زیادہ ہو رہے ہیں۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی ’’ہندو مرد آہن‘‘ بننے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ 2022 کا اسمبلی الیکشن جیت جائیں۔ ان کی نظر تو وزارت عظمیٰ پر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس قدر خود کو ہندووں کا مسیحا ہونا دکھائیں گے اسی قدر ان کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ مختار انصاری کو پنجاب کی جیل سے یو پی کی باندہ جیل میں منتقل کرنے اور اس پوری کارروائی کو گودی میڈیا کی جانب سے لائیو دکھانے کے پس پردہ یہی مقصد کارفرما نظر آتا ہے۔
بہرحال مسلمانوں کو ہمیشہ کسی نہ کسی معاملے میں الجھایا جاتا رہا ہے۔ اب بنارس کی گیان واپی مسجد کے سلسلے میں متنازعہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں۔ ممکن ہے کہ یہ فیصلہ منسوخ ہو جائے۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں 1991 کے قانون کو بھی چیلنج کر دیا گیا ہے اور وہ اس قانون کے جواز کا جائزہ لے رہا ہے۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔