نور اللہ جاوید
بھارت میں زبان پر تنازعہ کوئی نئی بات نہیں ہے،20ویں صدی کے آغاز میں ہی لسانی تنازعات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھاپہلے ہندی بنام اردو کا تنازعہ کھڑا ہوا۔اس کے بعد 1930میں جنوبی ہندوستان میںہندی کو مسلط کیے جانے کی شدید مخالفت ہوئی۔لسانی و تہذیبی تنوع کو برقرار رکھنے کے ساتھ کسی ایک زبان کو قومی زبان قرار دینا آئین سازوں کے لیے بڑا چیلنج تھا۔آئین ساز اسمبلی کو اس مسئلے کو حل کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہندی کے پرجوش حامی ہند ی کوملک کی قومی زبان بنانے کی ہرممکن کوشش کررہے تھے۔غیر ہندی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ممبران اس کے شدید مخالف تھے۔جسٹس دھار کمیشن اور جے وی پی کمیشن کی رپورٹ پر غور و فکر کرنے کے بعد آئین ساز اسمبلی نے قومی زبان کے سوال کو کنارہ کرتے ہوئے انگریزی اور ہندی کویکساں طور پر ملک کی سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ آئین کے آرٹیکل 343میں کہا گیا کہ ہندی مرکزی حکومت کی سرکاری زبان ہوگی اور 15سالوں تک انگریزی اور ہندی میں کام کاج ہوں گے اس کے بعد بتدریج ملک بھرمیں ہندی رابطے اور سرکاری کام کاج کی زبان بنائی جائے گی ۔ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے ملک کے تمام لسانی طبقات کو یقین دلایا تھاکہ کسی بھی زبان پر ہندی کو مسلط نہیں کیا جائے گا۔آزادی کے 15سالوں بعد جب ملک بھر میں ہندی کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو 1963میں لسانی تحریک برپا ہوگئی اور ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ۔چناں چہ اس تحریک نے پنڈت نہرو کوغیر معینہ مدت تک کے لیے انگریزی کویونین کی سرکاری زبان کا درجہ دینے پر مجبور کردیا ۔ مذہب کی بنیاد پر ملک تین حصوں میں منقسم ہونے کے بعد ہندوستان ایک اور تقسیم کا متحمل نہیں تھا۔چناں چہ ملک کی سالمیت اور اتحاد کے پیش نظر مرکزی حکومت ہندی ملک بھر کی سرکاری زبان بنانے کی پالیسی سے دستبردار ہوگئی ۔چناں چہ اس وقت سے ہندی ملک کی سرکاری زبان تو ضرور ہے مگر قومی زبان نہیں ہے اور نہ ہی کسی اورزبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔نہ آئین میں قومی زبان سے متعلق کوئی بات کہی گئی ہے اور نہ گزشتہ 7دہائیوں میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے اور نہ اس کی وجہ سے ملک کو اپنی شناخت اور تہذیب و ثقافتی عظمت کوثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔تاہم آئین میں 351آرٹیکل حسب سابق باقی رہا جس میں کہا گیا ہے کہ جامع ثقافت کو واضح کرنے کےلئے ہندی کو فروغ دینا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ آئین کے8ویں شیڈول میں ہندی کے ساتھ دیگر22زبانوں کوسرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے ۔اس کے بعد سے 2014تک کسی بھی حکومت نے ہندی کو پورے ملک میں مسلط کرنے کی اعلانیہ کوشش نہیں کی ہے ۔تاہم مرکزی حکومتوں کی جانب سے ہندی کے فروغ کے لیے مختص فنڈ میں سال بہ سال اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری سرپرستی اور ہندی سنیما کی ملک گیر مقبولیت نے ہندی کو کم و بیش ملک بھر کی رابطے کی زبان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔آج ملک بھر میں ہندی کو جاننے اور سمجھنے والے موجود ہیں ۔
2014میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے قیام کے بعد سے ہی منصوبہ بند طریقے سے ہندی کو قومی زبان بنانے اور ملک بھر میںاسکول کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔گزشتہ 8سالوں میں اس سمت میں مختلف سطحوں اور مختلف مواقع پر کوشش کی گئی ۔ مختلف اسٹیج و پلیٹ فارموں سے وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، نائب صدر اور دیگر سینئر وزرا نے ہندی کو قومی زبان بنانے کی پرز ور وکالت کی ۔تاہم جب جب ہندی کے حق میں آواز بلند کی گئی ہے اسی شدت کے ساتھ جنوبی ریاستوں ، بنگال اورآسام میں اس کی مخالفت میں آواز بلند ہوئی ہے۔14ستمبر کو ہندی دیوس کے موقع پر امیت شاہ نے ایک بار پھر انگریزی کی جگہ ہندی کو نافذ کرنے کی پرزور وکالت تو ملک بھر میں احتجاج کی آواز بلند ہونے لگی۔کرناٹک جو اس وقت ہندتو کی لیبارٹری بنتا جارہا ہے وہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلے کو پوری شدت سے اٹھایا۔اس سے قبل اپریل 2022میںبھی ’ ’پارلیمنٹ آفیشل لنگویج کمیٹی کی37ویں میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہندی کو انگریزی زبان کی جگہ قومی زبان بنانے کی وکالت کی ۔امیت شاہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیںکہ وہ مقامی زبانوں کی قیمت پر ہندی کو نافذ نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ انگریزی جو ایک غیر ملکی زبان ہے اس کی جگہ پر ہندی کو ملک بھر کی قومی زبان بنانا چاہتے ہیں اور یہ ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے کئی دعوے بھی کیے کہ ’’ مرکزی حکومت کے 70فیصد کام کاج ہندی میں ہوتے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ہندی کو ملک بھر کے لیے رابطے کی زبان بنادیا جائے ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں 22سو ہندی اساتذہ کی تقرری کا مژدہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شمال مشرقی ہندوستان کی 8ریاستیںدسویں جماعت تک ہندی کو پڑھانے کے لیے رضامند ہوگئی ہیں اس کے علاوہ کئی قبائلی اپنی زبانوں کو ہندی اسکرپٹ میں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔امیت شاہ کے اس بیان پر بھی ملک بھر سے سخت رد عمل سامنے آیا ۔تمل ناڈو جو ہمیشہ سے اس معاملے میں حساس رہا ہے وہاں سے رد عمل آنا یقینی تھا۔مگر اس مرتبہ جنوب کی دوسری ریاستوں کرناٹک، کیرالہ ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے بھی سخت رد عمل سامنے آیا۔تاہم شمال مشرقی ریاستوں کے متعلق امیت شاہ نے بڑھ چڑھ کرجو دعوے کیے تھے وہاں سے بھی اسی شدت کے ساتھ مخالفت کی آواز بلند ہوئی ۔مختلف تنظیموں نے اس کو متکبرانہ لہجے سے تعبیر کیا ۔آسام جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ، وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا س سرما نے مرکزی وزیر داخلہ کی حمایت کرنے کے بجائے آسام میں چار لسانی فارمولے نافذ کرنے کی تجویز پیش کردی۔میگھالیہ ، میزورم اور ناگالینڈ نے واضح لفظوں میں کہا کہ وہ مرکز کی اس پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔علاوہ ازیں شمال مشرقی ریاستوں کی مختلف تنظیموں اور لیڈروں نے اس معاملے میں سخت تیور دکھائے ہیں۔ایسے میںیہ سوال لازمی ہے کہ جب غیر ہندی ریاستیںہندی کو قومی زبان کا درجہ دینے کی شدید مخالفت کرتی رہی ہیں تو پھراس پر قدر اصرار کیوں ہے؟کیاکسی بھی ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کسی ایک زبان کو قومی زبان کا درجہ دینا لازمی ہے؟۔ کیا ہند ی کے نفاذ سے ملک کی دیگر مقامی زبانیں متاثر نہیں ہوں گی؟۔ ہندی کو تھوپنے کے پیچھے بی جے پی اور آر ایس ایس کی ذہنیت اور قدیم ایجنڈہ ’’ایک ملک ، ایک زبان اور ایک مذہب ‘‘کا ر فرما تو نہیں ہے؟۔یہ تمام ایکسر سائز اس ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے تو نہیں کی جارہی ہے؟۔
ہندی سامراج ۔۔لسانی نسل کشی
2011کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں ہندی بولنے والوں کی کل تعداد 57کروڑ ہے ۔مگر اس میں 12کروڑ ایسے افراد بھی ہیں جن کی اپنی علیحدہ زبان ہے۔ مثال کے طور پربہار میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق، 31 فیصد افراد بھوجپوری اور25فیصد افرادماگھی بولتے ہیں۔ صرف 21فیصد افرادہندی بولتے ہیں۔ لیکن ماگھی اور بھوجپوری کو 8ویں شیڈول میں علیحدہ زبان کے طور پر شامل نہیں کیا گیا ہے اورمردم شماری میں صرف 8ویں شیڈول کے زبانوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ میتھلی، بھوجپوری جیسی زبانیں جس کی اپنی الگ لسانی ساخت ہے مگر رسم الخط کی یکسانیت کی وجہ سے اسے ہندی کے زمرے میں رکھ دیا گیا ہے۔ مردم شماری کے دوران ہندی ان تمام بولنے والوں کی مادری زبان بن جاتی ہے جن کی زبانیں شیڈول 8 میں درج نہیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سنسکرت جسے صرف 25 ہزار لوگ بولتے ہیں وہ 8ویں شیڈول میں شامل ہے لیکن بھوجپوری 8ویں شیڈول میں شامل نہیں ہے جب کہ اس کوتقریباً 2 کروڑ لوگ بولتے ہیں۔ ماہر لسانیات اور اسکالر جی این دیوی کے مطابق قوم کی تعمیر اور یکجہتی کے نام پرہندی کے ذریعہ 220زبانوں کی ہلاکت ہوچکی ہے ۔اس لسانی نسل کشی کومتحدہ ہندوستان کے لیے ناگزیر بتایا جارہا ہے۔
1961 کی مردم شماری تک، میتھلی کو ایک الگ زبان کے طور پر شناخت کیا جاتا تھا۔ 1965 کے اوائل میں ساہتیہ اکادمی نے اسے ایک قدیم ادبی ورثے والی زبان کے طور پر قبول کیا تھا۔2003 میں ایک ترمیم کے ذریعہ میتھلی زبان کو آئین کے 8ویں شیڈول میں شامل کردیا گیاہے۔ 1971-81 کی مردم شماری کے بعد سے ہی اس کو ہندی کے زمرے میں شمار کیاگیا ۔میتھلی ، بھوجپوری اور راجستھانی جیسی زبانیں ہندینائزیشن کی شکار ہیں۔بعض مبصرین کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ زبان کی مردم شماری کے دوران لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ ہندی زبان جانتے ہیں یا نہیں ۔جب کہ سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کی مادری زبان کیا ہے ؟۔سوالات کی اس ہیرا پھیری کی وجہ سے جن کی زبان اردو ہے ان کا بھی شمار ہندی بولنے والوں میں کردیا جاتا ہے۔سال بہ سال ہندی بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے پیچھے اس’’جادوئی حکمت عملی‘‘ کابھی اہم رول ہے۔مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ دعویٰ کہ شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلیوں نے اپنی زبانوں کے لیے دیونا گری رسم الخط کو قبول کرلیا ہے۔دراصل یہ زیادہ دبائو بنانے کی پالیسی ہے ۔ آر ایس ایس طویل مدت سے اس کے لیے ماحول سازگار بنارہی ہے۔ قبائلی رسم الخط کا دیوناگرائزیشن یا پھرسنسکرتائزیشن دراصل قبائلی ثقافت کو ہندو نائزیشن کرنا مقصود ہے۔
اردو زبان اگر آج کسی حدتک ہندوستان میں اپنے وجود کے ساتھ باقی ہے تو اس کی اصل وجہ رسم الخط کی حفاظت پر اصرار ہے۔جولوگ اردو کے لیے دیوناگری رسم الخط کو قبول کرنے کی بات کررہے ہیں وہ دراصل اردو کے خاتمے کے لیے قبر کھودنا چاہتے ہیں۔
ہندوستان میں زبان کا مسئلہ اور آئین کے تقاضے
ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ لسانی متنوع اور پیچیدہ ممالک میں ہوتا ہے۔ آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 سرکاری زبانوں کے ساتھ، تقریباً 100 غیر شیڈول زبانیں بھی ہیں جن میں سے ہر ایک کے10,000سے زیادہ بولنے والے افراد موجود ہیں۔ اس میں 700 سے زیادہ زبانیں، 1,800مادری زبانیں، اور متعدد بولیاں، معمولی یا غیر تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ یہ لسانی تنوع عوامی اور نجی ڈومینز میں ظاہر ہوتے ہیں، آل انڈیا ریڈیو پر24 سے زیادہ زبانوں اور تقریباً 150 بولیوں میں خبریں اور 850 سے زیادہ کیبل اور سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں پر ملک کی تمام بڑی زبانوں میں پروگرام نشر کیے جاتے ہیں ۔1872 میں نوآبادیاتی ہندوستان میں پہلی مردم شماری ہوئی، لسانی تنوع اور اس کاٹیبلیشن بعد میں ہونے والی مردم شماریوں اور سروے کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ علاوہ ازیں لسانی تنوع سے متعلق ہندوستان میں حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر بھی الگ سے سروے بھی ہوئے ہیں۔جارج ابراہم گیرئیرسن نے1891میں ہندوستان میں لسانی تنوع کا علیحدہ سروے کرانے کی تجویز رکھی تھی۔ 1894میں سروے کی شروعات ہوئی اور 1928میں اس سروے کی مکمل رپورٹ آئی۔اس کے بعد سابق سول سروس آفیسر کمار سریش سنگ نے ’’پیوپل آف انڈیا‘‘ کے تحت سروے کیا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں لسانی تنوع پر سب سے بڑا سروے ماہر لسانیات گنیش دیوی کی تنظیم پیپلز لینگوئسٹک سروے آف انڈیا (PLSI) کی نگرانی میں انجام دیا گیا ہے۔اس سروے میں ناقابل یقین لسانی تنوع سامنے آیا ہے۔اس سروے سے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا لسانی سروے ہے۔ مطالعہ کے تحت 27 ریاستوں میں 3000 لوگوں کی ٹیم نے ملک کی کل 780 زبانوں کا سروے کیا ہے۔اس سروے میں کہا گیا تھا کہ دنیا کی 6000 زبانوں میں سے 4000 کو معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے، جن میں سے 10 فیصد ہندوستان میں بولی جاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ہماری کل 780 زبانوں میں سے 400 ہندوستانی زبانیں معدوم ہو سکتی ہیں۔یہ سروے واضح کرتے ہیں کہ ہندوستان کس قدر لسانیات کے معاملے میں تنوع والا ملک رہا ہے۔مگر یہ تنوع دن بدن ختم ہوتی جارہی ہے۔ چناں چہ ہندوستان کے آئین میں بعض بنیادی حقوق اور ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے ذریعے لسانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ آرٹیکل 20، 30، اور 350 میںبنیادی طور پر مختلف لسانی اقلیتوں کے ’’مختلف زبان، رسم الخط یا ثقافت‘‘ کو محفوظ رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ آرٹیکل 29 ثقافتی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی زبانوں اور ثقافتوں کے تحفظ کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 30 میں کہا گیا ہے کہ زبان یا مذہب کی بنیاد پر تمام اقلیتوں کو اپنی زبانوں اور ثقافتی وسائل کے تحفظ اور اس کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہے۔ یہ ریاستوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کریں بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن آرٹیکل 30 کو آرٹیکل 350(A) کے سیاق و سباق کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں کو پرائمری اسکول کی سطح پر مادری زبان میں تعلیم کے لیے سہولیات فراہم کرنی چاہیے۔ اور آرٹیکل 350 (B) میںلسانی اقلیتوں کے لیے کمشنر کی تقرری کویقینی بناتا ہے۔تاکہ صدر جمہوریہ کو پیش کی جانے والی سالانہ رپورٹ کی تیاری کو یقینی بنائی جا سکے۔ صدر ان رپورٹوں کو پارلیمنٹ کے ہر ایوان کے سامنے رکھنے کی ہدایت دے سکتے ہیں اور ریاست کے گورنر کو بھی بھیج سکتے ہیں۔
آٹھویں شیڈول ہندوستان کی لسانی وفاقیت کا ایک اہم جزو ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں اس کی برقراری اور توسیع کو متنوع زبان کی کمیونٹیز کے جمہوری حقوق کے اظہار کے طور پر تعبیر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ سماجی کثیر لسانی، سماجی-ثقافتی تکثیریت اور کثیر الثقافتی کے پیچیدہ مسائل کے اندر زبان کے حقوق کو ثقافتی-سیاسی حقوق کے طور پر استحقاق دیتا ہے۔
2020قومی تعلیمی پالیسی اور اردو کو درپیش چیلنجز
2019میں نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے میں سہ لسانی فارمولہ TLF))کو برقرار تو رکھا گیا تھا مگر اس میں 8ویں جماعت تک ہندی کو لازمی کردیا گیا ۔یہ مسودہ سامنے آنے کے بعدجنوبی ہند کی تمام ریاستوں تلنگانہ، آندھرپردیش، کرناٹک، تمل ناڈو، کیرالہ اور پانڈیچری دوسری جانب مہاراشٹر اور شمال مشرقی ریاستوں میں شدید مخالفت شروع ہوگئی ۔کرناٹک جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں بھی اس مسودے کے خلاف مختلف حلقوں سے آواز بلند ہونے لگی۔تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اسٹالن نے اس کو ’’بھیڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے ‘‘کے مترادف قرار دیا۔شدید مخالفت کے بعد 2020میں جو تعلیمی پالیسی سامنے آئی اس میں سہ لسانی فارمولہ کو برقرار رکھتے ہوئے ہندی کی شرط ختم کردی گئی اوریقین دہانی کرائی گئی کہ ہندی کو ان ریاستوں میں مسلط نہیں کیا جائے گا جو ریاستیں ہندی کو پڑھانے کو تیار نہیں ہے۔مگر مسودے میں یہ تجویز دی گئی کہ پرائمری سطح پر اسکولی تعلیم کے لیے تین زبانوں میں سے دو مادری زبانیں ہونی چاہئیں۔ پرائیوٹ اور سرکاری اسکولوں میں 5ویں جماعت تک مادری زبان میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔
دراصل 1966-64کے درمیان کوٹھاری کمیشن نے ہندوستان جو ایک کثیر لسانی ملک ہے وہاں تمام علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے سہ لسانی فارمولے پیش کیا تھا ۔اس فارمولے کو 1968میں نافذ کردیا گیا۔اس کے بعد قائم ہونے والی تمام تعلیمی کمیشنوں اور کمیٹیوں نے اسکولوں کی تعلیم میں سہ لسانی فارمولے کو باقی رکھنے کی سفارش کی ۔چناں چہ2019کے مقابلےمیں2020 کے حتمی قومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی فارمولے کو برقراررکھنے کے ساتھ پرائمری سطح پر اسکولوں میں دو مقامی زبانوںکی تعلیم کی ہدایت دی گئی ہے ۔مگر اس پالیسی میں ریاستی اور علاقی سطح پر لسانی تکثیریت کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔جب کہ ضرورت اس بات کی تھی پرائمری سطح پر اسکول کی تعلیم کے لیے غیر معروف زبانوں اور اقلیتی یا قبائلی زبانوں کی شناخت کی جاتی اور اس کی تعلیم کے لیے خصوصی انتظامات اور اساتذہ کی فراہمی کے لیے ہدایات دی جاتیں۔چناں چہ ہندوستان کی آزادی کی دوسری دہائی کے بعد سے ہی ملک میں سہ لسانی فارمولا نافذ ہے اس کے باوجود علاقائی بالخصوص جن زبانوں کا اپنا کوئی علاقہ نہیں ہے اسکولی سطح پر اس کی تعلیم ختم ہوتی جارہی ہے۔اس صورت حال کا سب سے زیادہ نقصان اردو زبان کو اٹھانا پڑا ہے۔غیر ہندی ریاستوں نے دسویں جماعت تک علاقائی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔تمل ناڈو میں تمل، آندھرا پردیش میں تیلگو، کیرالا میں ملیالم، بنگال میں بنگالی، آسام میں آسامی اور اڑیسہ میں اڑیا دسویں جماعت تک لازمی ہے۔ مہاراشٹراور بنگال میں بنگلہ اور مراٹھی نہ جاننے والوں پر نوکری کے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔انگریزی چوں کہ بین الاقوامی زبان ہے اور اقتصادی سرگرمیوں، پرنٹ اور الیکٹرانک مواصلات میں انگریزی معاون ہے۔اس لئے دوسری زبان انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔ہندی کے فروغ کے لیے جو کوششیں کی جارہی ہیں اس سے متاثر ہوکر اکثر طلبا ہندی کو تیسرے مضمون کے طور پر لیتے ہیں۔ایسے میں اردو کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔مہاراشٹر کو چھوڑ کر بیشتر ریاستوں میں اسکولی سطح پر اردو کی تعلیم ختم ہوتی جارہی ہے۔ہندوستان کی آزادی کے وقت بنگال میں بڑی تعداد میں ملٹی لنگویج میڈیم اسکول تھے مگر بیشتر اسکولوں کو بنگلہ میڈیم اسکولوں میں تبدیل کردیا گیا ۔اترپردیش میں اردو میڈیم اسکول اور اردو اساتذہ کی بحالی تقریبا ختم ہوگئی ہے۔بہار میں بھی ہائی اسکول کی سطح سے اردو کو ہٹانے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔بنگال میں ایسی سازش تو نہیں کی جارہی ہے۔مگر بیشتر اردو میڈیم اسکولوں میں 70فیصد اساتذہ کی جائیدادیںخالی ہیں ایسے میں کوئی بھی والدین اردو میڈیم اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ کرواکے ان کا مستقبل تاریک کرنا نہیں چاہیں گے۔
اردوآبادی کےلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سہ لسانی فارمولے کے تحت اسکولوں میں اردو تعلیم کے لیے قانونی گنجائش موجود ہے اس کے باوجود اردو حلقوں میں آباد سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں اردو کوبطور سبجیکٹ شامل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔اگر کسی کلاس میں دس بچے مقامی زبان کو پڑھنے کے لیے درخواست دیں گے تو اسکولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سبجیکٹ کے اساتذہ کا انتظام کرے۔مگر اردو کے ساتھ اہل اردو نے ہی بے اعتنائی برتی ہے۔’’صرف اردو بچائو جیسے نعروں ‘‘ اور عالمی یو م مادری زبان یا پھر عالمی یوم اردو پر سیمینار وں کے انعقاد سے‘‘سے اردو کی حفاظت نہیں ہوسکتی ہے ۔بلکہ زمینی سطح پر کام کرنے سے ہی ممکن ہے۔طلبا کو اردو کا ایک سبجیکٹ منتخب کرنا ہوگا اور اسکول انتظامیہ پر اردوٹیچر بحال کرنے کے لیے مقامی سطح پر کوشش کرنی ہوگی ۔اس کے بعد ہی اردو کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
ہندی سامراج کو ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا
سنگھ پریوار اور بی جے پی کا ملک کے اتحاد کے لیے ’’ایک قوم، ایک مذہب اور ایک زبان ‘‘ کی پالیسی یا آئیڈیا اس کا اپنا تخلیق کردہ نہیں ہے بلکہ 19ویں صدی میں یورپ کے نظریے کا چربہ ہے۔19ویں صدی میں یورپ میں بھی انہیں نعروں کے ساتھ قوم پرستی کی تحریک شروع ہوئی تھی مگر یہ تحریک غیر انسانی، آمرانہ اور غیر جمہوری اخلاقیات کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔یورپ ہم مذہب ہونے کے باوجود ایک زبان اور ایک کلچر کو تھوپنے کی کوششوں کی وجہ سے کئی ٹکڑوں میں منقسم ہوگیا اور اب روس ۔ یوکرین جنگ نے یورپی یونین کے تصور کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔مذہب اور زبان کا ایشو ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔چناں چہ ہم زبان ہونے کے باوجود انگریزوں نے بنگال کو 20ویں صدی کے آغاز میں دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔یہ تقسیم مذہبی بنیاد پر تھی مگر جب اسی مذہبی طبقے پر اردو کو تھوپا گیا تو مملکت خداداد دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔چناں چہ ہندوستان کی آزادی کے بعد دستور سازاسمبلی میں ہمارے قومی لیڈروں نے زبان کے مسئلے پر طویل بحثیں کیں اور کافی غو ر وفکر کے بعد ہندی کو قومی زبان بنانے کی تجاویز کو مستردکردیا ۔کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ زبان اور ثقافت کو تھوپنے کی کوششوں کی وجہ سے ہی یورپ خانہ جنگی کا شکار ہوا اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ہندوستان پہلے ہی مذہبی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔اب اگر کسی ایک زبان کو تھوپنے کی کوشش کی گئی تو ملک لسانی تنازعات کی آگ میں الجھ جائے گا۔اس لیے لسانی تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے تمام زبانوں کو یکساں احترام اور مواقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔آٹھویں شیڈول کے تحت پہلے 14زبانوں اور بعد میں 21زبانوں کو شامل کرکے تمام زبانوں کی ترقی اور یکساں مواقع فراہم کرنے کا آئینی انتظام کردیا۔تاہم جب جب مرکز میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حامی اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے ہندی کو ملک بھرمیں تھوپنے کی کوشش کی ہے۔اس کے لیے دوطرح سے جھوٹ گھڑے گئے ۔پہلا جھوٹ یہ پھیلایا گیا کہ گاندھی جی اور سردار ولبھ بھائی پٹیل ہندی کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں تھے۔جب کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔گاندھی جی 20ویں صدی کے آغاز سے ہی ہندی اور اردو کے تنازعہ کی وجہ سے فکر مند تھے وہ کسی ایک زبان اور ایک رسم الخط کو تھوپنے کے بجائے ہندوستانی بولی کو فروغ دینے کے حق میں تھے۔جب کہ ولبھ بھائی پٹیل زبان کے تنازعات سے اپنے دامن کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔جب کہ آزادی کے بعد شاہی ریاستوں اور صوبوں کے انضمام کی ان کی کوششوں کے اثرات نسلی لسانی تعلقات پر بھی پڑے اوربعد میں لسانیات کی بنیاد پر صوبوں کی تقسیم ہوئی۔اس سلسلے میں دوسرا سب سے بڑا جھوٹ یہ بولا جاتا ہے کہ ہندی ملک کی اصل زبان ہے۔جب کہ یہ تاریخی اعتبار سے بالکل جھوٹ ہے۔گرچہ یہاں پر تاریخی پیچیدگیوں اور حقائق پر بات کرنے کی گنجائش ہے مگر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہندی اور اردو دونوں کے ابتدااور عروج کی تاریخ کم وبیش یکساں ہے، بلکہ اردو نے ہندی کے مقابلے میں پہلے قومی سطح پر قبولیت کے منازل کوطے کرلیا تھا مگرانگریزوں کی آمد اور ہندوستانیوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لیے ہندی اور دیوناگری رسم الخط کا تنازعہ کھڑا کیا گیا ۔اردوکے مقابلے میں ہندی کو کھڑا کیا گیا۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہندی کا عروج نوآبادیات کی دین ہے۔اگر انگریز حکمرانوں کی توجہ نہیں ہوتی تو شاید ہندی کا عروج اس قدر نہیں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک کے اتحاداور بین الاقوامی سطح پرمستحکم شناخت کے لیے کسی ایک زبان کو قومی زبان بنانا ضروری ہے۔ کیا ’’ایک قوم اور ایک زبان ‘‘ کے مطالبے کی وجہ سے طویل جمہوری اور سیکولر جدوجہد اور ان زبانوں کی ثقافت اور سماجی روایات کو ٹھیس نہیں پہنچے گی ؟ زبانیں مشترکہ تاریخ، ثقافت، جذبات اور اپنے بولنے والوں کی عادتوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ایک ناقابل یقین علمی ذخیرہ کی حامل ہوتی ہیں۔اس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہوتے ہیںچناں چہ کثیر لسانی ملک میں ایک زبان کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کی ہمیشہ مزاحمت ہوئی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ان حقائق کے باوجود آر ایس ایس اور دائیں بازوں کی حامل جماعتیں ہندی کو نافذ کرنے کی کوشش کیوں کرتی ہیں۔اس سوال کا جواب ہندی قوم پرستی کے مصنف اور ہندی ادب کی بلند ترین شخصیات میں سے ایک پریم چند کے پوتے آلوک رائے نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح دیا ہے ’’زبان کی بنیاد پر قوم کو متحد کرنے کی آرزو ایک ایسی چیز تھی جس نے حقیقت میں قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے قریب پہنچا دیا تھا۔ ہندی کی وجہ سے دستور ساز اسمبلی تقریباً ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد یہ معاملہ 15 سال کے لیے ٹال دیا گیا۔ 14 ویں سال میں ہندی کو قومی زبان کے طور پر پیش کرنے والوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہمارا وقت آ گیا ہے۔ لیکن آندھرا پردیش اور تمل ناڈو میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔اس کے بعد ہندی کو قومی زبان بنانے کی آرزو کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ۔اس کے باوجود بی جے پی اس معاملے کو بار بار کیوں اٹھاتی ہے؟دراصل بی جے پی کے پاس اس کو نافذ کرنے کا کوئی نسخہ نہیں ہے۔ لیکن ملک کو پولرائز کرنے اور شمال و جنوب کے درمیان تقسیم پیدا کرکے ہندی علاقے میں ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ہندی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ قومی اتحاد کے لیے یہ عظیم مدگا ر ہے کہ جب کہ قومی اتحاد کے لیے اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ ہندی ہے ۔جب جب ہندی کا سوال پیدا ہوتا ہے قومی اتحاد پاش پاش ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ہندی پٹی میں خود کو مضبوط کرنے کے لیے ’’ایک راشٹر، ایک بھاشا‘‘ کا نعرہ ضروران کے لیے معاون و مدگار ثابت ہوتا ہوگا مگر ہندی خود تقسیم کا شکار ہے ۔ایک طرف سنسکرت زدہ برہمنی ہندی ہے تو دوسری طرف برج، میتھلی اور بھوجپوری جیسی ہندی بولیاں ہیں ۔چناچہ برہمنی ہندی کی آج تک کسی بھی قابل شخص اور ادیب نے حمایت نہیں کی ہے‘‘۔
نئی سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ متعدد زبانوں کی مہارت مختلف قسم کی علمی تخلیقی صلاحیتوں کو افزوں کرنے کا ذریعہ ہے ۔ بین الاقوامیت، عالمی سرمایہ داری، پوسٹ نیشنل اسٹیٹزم کے دور میں، ایک مشترکہ زبان کے ذریعے جاننے اور کام کرنے کا سوچنا فضول اور رجعت پسندی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک جمہوری ملک میں، ایک زبان کو فوقیت دینا اپنے شہریوں سے ان کے مختلف قسم کے لسانی سرمائے جیسے آزادی اظہار، اختلاف رائے، محاورات اور استعارات اور شاعرانہ زندگی سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔زبانیں پہچاننے، نمائندگی کرنے اور وسائل پیدا کرنے کے ذرائع فراہم کرتی ہیں۔ قوم کا نظریہ تجریدی، اپنائیت کے احساس، نامیاتی میل جول کے حوالے سے زیادہ اہم ہے جس کی شناخت شہری اپنی روزمرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔ آمرانہ ریاست کے حکم کی جبری تعمیل، فرمانبرداری اور خاموش تابعداری سے قوم کا نظریہ مضبوط نہیں ہوتا ہے۔