Wednesday, December 4, 2024
homeاہم خبریںہندوستانی مسلمانوں کےلئے مولانا آزاد کے نظریات آج بھی مشعل راہ ہیں-----...

ہندوستانی مسلمانوں کےلئے مولانا آزاد کے نظریات آج بھی مشعل راہ ہیں—– انصاف نیوز آن لائن کے خصوصی پروگرام فیس ٹو فیس میں نور اللہ جاوید کے ساتھ پینٹ اسکول آف لا کے پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر کی خاص بات چیت

کلکتہ انصاف نیوز
پینٹ یونیورسٹی آف لا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر نے مولانا آزادکے نظریہ اور فکر کی تنقید کرنے والوں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے موجودہ حالات میں بھی مولانا آزاد کے نظریہ اور فکر کی معنویت برقرا رہےبلکہ مولانا کے نقش قدم پر چل ہی ہندوستان کو فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کی آگ سے بچایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد عمر نے ’’آج کے ہندوستان میں مولانا آزاد کے نظریہ کی معنویت ‘‘ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے وقت بھی ہندوستان میں فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہا تھا اور اس وقت بھی ہندوستان کی مذہبی تقسیم ہورہی تھی مولانا آزاد نے ان صورت حال میں سامنے آکر ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد ایک دوربین قائد تھے۔انہیں معلوم تھا کہ کوئی بھی مملکت صرف مذہبی شناخت کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا ہے۔اس کےلئے ضروری ہے کہ اپنے تمام شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب اور زبان کے بولنے والے ہیں کو متحد رکے ایک ساتھ چلے۔اسی وقت کوئی بھی ملک ترقی کرسکتا ہے۔مولانا آزاد نے آخر آخر وقت تک کوشش کی کسی بھی صورت میں ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ چند مہینوں و سال کےلئے ٹل جائے تاکہ حالات نارمل ہوجائیں ۔
ڈاکٹر محمد عمرنے کہاکہ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں صرف مولانا آزاد ہی واحد شخصیت ہیں جو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پل کاکام کرسکتے ہیں۔انہوں نے مولانا آزاد کے 1921میں آگرہ کے خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد نے شروع سے ہی ملک کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔خلافت تحریک میں بھی انہوں نے گاندھی کو شامل کیا۔مولانا آزاد کی کوشش تھی کہ ہندوستان کا سیکولرکردارکبھی بھی مجروح نہ ہواور بعد میں یہ ہندوستان کے آئین کا حصہ بھی بن گیا۔
ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت سے دستبرداری کے سوال پر محمد عمر نے کہا کہ جو لوگ مولانا آزاد کے نظریہ کی تنقید کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں جناح کا نظریہ صحیح تھا دراصل ایسی سوچ رکھنے والے مولانا آزاد کے وژن اور مشن کو سمجھتے نہیں ہے۔مولانا آزاد طویل مدتی منصوبے کے حق میں تھے اور مولانا اصولوں کی بات کررہے تھے اور مولانا کے مطابق اصول وقت کا محتاج نہیں ہوتاہے۔اسی وجہ سے انہوں نے آخرتک مولانا تقسیم کی مخالفت کرتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا کی سوچ تھی تکثیری معاشرہ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔انہوں نے قرآن سے ثابت کیا ہے ۔سورہ ممتحنہ کی آیت کو پیش کرتے ہوئے کہاکہ قرآن نے کہا ہے کہ جولوگ تم کو اپنے ملک سے نکالتے اور دین کی راہ سے روکتے ہیں تو ان سے دوستی نہیں کرسکتے ہیں مگر جولوگ مسلمانوں کونقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں ان سے دوستی کی جاسکتی ہے۔اسی وجہ سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر معاہدے کئے ہیں ۔یہاں تک کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا ہے۔چناں چہ اس وقت ہم اگرکسی کے ایجنڈے پر رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے مشن پر کام کررہے ہیں اور ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں ۔اس لئے ایسے مواقع پر ہمیں وقتی رد عمل کے بجائے اپنے ایجنڈے پر کام کرتے رہنا ہے۔
انہوں نے 1961میں مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی کے میانمار کے دورے کا حوالہ دیتے کہا کہ مولانا نے روہنگیائی مسلمانوںکو دعوت اور تعلقات قائم کرنے کا پیغام دیا تھا۔ اس سوال پر کہ ان دنوں مسلم سیاسی جماعت اور مسلم لیڈر شپ پر بہت ہی زیادہ بات ہورہی ہے۔کیا یہ سوچ مولانا کے نظریہ کے خلاف نہیںہے؟ڈاکٹر محمد عمر نے کہا کہ مسلم لیڈر شپ اور قیادت کا سوال کوئی غلط نہیں ہے ۔بلکہ یہ ہندوستانی مسلمانوںمیں جمہوریت اور آئین کے تئیں اعتماد بحال کرنے کا سب سے ذریعہ ہے۔یہ سیاسی جماعت مسلمانوں میں جمہوریت اور آئین کے تئیں اعتماد پید ا کررہی ہیں ۔یہ خوش آئند ہے ۔ہم نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج میں جمہوریت کے تئیں اپنے یقین کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عمر نے کہا کہ آج مولانا آزاد ہوتے تھے وہ غیر مسلم کے تنظیموں اور لیڈروں سے ڈائیلاگ کرتے ، مسلم معاشرے کی کمیوں اور کوتاہیوں کے خاتمے کی تحریک چلاتے۔وہ ہندوستانی مسلمانوں کو پیغام دیتے کہ وہ ہندوستان کی ترقی میںا ہم کردار ادا کرنے کےلئے تعلیم اورسماجی شعبوں میں ترقی کریں ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین