Saturday, July 27, 2024
homeہندوستانتری پورہ تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے یو...

تری پورہ تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا جانا افسوس ناک —-صحافیوں کی عالمی تنظیم نے تری پورہ حکومت کے اقدامات کی مذمت کی

اگر تلہ:
صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے سرگرم بین الاقوامی تنظیم’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘جوایک آزاد، غیر منافع بخش تنظیم ہے اور دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے تحفظ کےلئے کام کرتی ہے نے تری پورہ حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اکتوبر کے آخر ہفتے میں مسلم مخالف تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے اور اس کی خبر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کے الزمات تحقیقات کو فوری طور پر بند کریں ۔
3نومبر کو درج شکایت میں تری پورہ پولس نے دعویٰ کیا تھاکہ 102 سوشل میڈیا اکاؤنٹس “قابل اعتراض خبریں/بیانات” پھیلانے کے لیے ذمہ دار ہیں اور اکاؤنٹ ہولڈرز کے خلاف یو پی اے کے تحت مقدمات کئے جارہے ہیں ۔صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا کہ اس نے پولس کی جانچ پڑتال کے تحت 102 اکاؤنٹس میں سے پانچ کی نشاندہی کی ہے جو صحافیوں کے ہیں۔صحافیوں میں کیرالہ سے شائع ہونے والے انگریزی نیوز پورٹل مکتوب کے میر فیصل، فری لانس صحافی سرتاج عالم، نیوز کلک کے سینئر ایڈیٹر شیام میرا سنگھ، فری لانس صحافی عارف شاہ اور لندن سے شائع ہونے والے ماہانہ اخبار بائی لائن ٹائمز کے عالمی نمائندے سی جے ورلمین شامل ہیں۔
بین الاقوامی صحافی تنظیم کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر سٹیون بٹلر نے کہاکہ ’’تریپورہ میں ہندوستانی پولس کو یہ قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹوئیٹر یا کسی اور جگہ پر فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹنگ صحافیوں کے لیے ایک عام سرگرمی ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے‘‘۔بٹلر نے کہاکہ پولیس کو صحافیوں کو اپنا کام کرنے پر ہراساں کرنا بند کرنا چاہیے اور دہشت گردی کی تحقیقات کو فوری طور پر ختم کرنا چاہیے۔
دو دن پہلے شیام میرا سنگھ کے ساتھ دو وکلاء مکیش، انصار اندوری- تریپورہ تشدد پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پریوپی اے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ان لوگوںنے سپریم کورٹ میں درخواست کی ہے کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت درج ایف آئی آر کو منسوخ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے درخواست کی جلد فہرست سے اتفاق کیا۔ان میں سے پہلایو اے پی اےکیس دو وکلاء، انصار اندوری اور مکیش کے خلاف درج کیا گیا تھا، جو ریاست میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی تحقیقات کرنے والی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے بعد ان کے خلاف الزامات درج کیے گئے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘تریپورہ میں انسانیت پر حملہ کیا گیا ہے۔انتہا پسندوں کے حملے میں کم از کم 12 مساجد، نو دکانوں اور مسلمانوں کے تین مکانات کی توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔اس کے بعد، تریپورہ پولیس نے دہلی میں مقیم ایک مسلم این جی او، تحریک فروغ اسلام کے چار ارکان کو گرفتار کیا، جنہوں نے تریپورہ کا دورہ کیا۔ ان چاروں کو جن پر یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا انہیں دھرمن نگر کورٹ نے 14 دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا تھا۔102 سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرز (68 ٹویٹر پروفائلز، 32 فیس بک پروفائلز، اور 2 یوٹیوبرز) جن پر سخت UAPA کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا، ان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان بھی شامل ہیں۔ فرنٹ آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری انیس احمد، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی صدر سلمان احمد اور سماجی کارکن شرجیل عثمانی۔یہ مقدمات پہلے مغربی اگرتلہ پولیس اسٹیشن میں درج کیے گئے اور بعد میں تریپورہ کی کرائم برانچ کو منتقل کر دیے گئے۔تریپورہ کی بی جے پی حکومت اور ریاستی پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ ریاست میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی ہندوتوا گروپوں کی طرف سے کوئی مسجد جلائی گئی ہے ۔
جب کہ انصاف نیوز آن لائن مکتوب میڈیا نے شمال مشرقی ریاست میں متعدد مسلم مخالف جرائم کی اطلاع دی ہے۔مکتوب نے مسلمانوں کے خلاف دو درجن سے زیادہ نفرت انگیز جرائم کی اطلاع دی جن میں مسجد کی توڑ پھوڑ، مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور ہاکروں کے خلاف حملے، مسلم خواتین سے چھیڑ چھاڑ، اور ریلی کے دوران مسلم مخالف اور نسل کشی کے نعرے شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین