کلکتہ :
انصاف نیوز آن لائن کے زیر اہتمام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر مجیب الرحمن کی نئی مطبوعہ ’’شکوہ ہند ‘‘ پر ایران سوسائٹی کے ڈاکٹر محمد اسحاق ہال میں پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں جادو پور یونیورسٹی کے پروفیسر اوم پرکاش مشرا، پروفیسر معید الاسلام اور ڈاکٹر فواد حلیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔پینل ڈسکشن مقررین نے بھارت کے موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کھل کر بات کی ۔
جادو پور یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر اوم پرکاش مشرا نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کا سیاسی مستقبل روشن ہے ہیں اور بی جے پی زوال کی طرف مائل ہوچکی ہے۔انہوں نے بنگال کے حوالے سے کانگریس اور سی پی ایم کی تنقید کی کہ ان میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
ڈاکٹر فواد حلیم نے کہا کہ بھارت کے مسلمانوں نے اپنی مرضی سے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا ۔انہو ں نے کہا کہ 1947میں عید کی نماز دوجگہوںپر ہوئی تھی ۔ایک طرف پاکستان حامی تھے دوسری طرف بھارت کے حامی تھے۔انہوں نے کہا کہ کلکتہ میں بھارت کےحامی مسلمانوں کا اجتماع کہیں زیاد ہ بڑا تھا۔انہو ںنے کتاب کے بعض حصے پر عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ ہرایک پہلو کا جائزہ لیا جائے۔
ڈاکٹر معید الاسلام نے کتاب کی مشمولیات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مصنف نے بھارت میں مسلمانوں کی موجودگی پر تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ایک دور 1857سے 1947کا دور ہے ۔دوسرا دور1947سے 2014تک کا ہے اور تیسر ادور 2014کے بعد شروع ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر تیسرے دور میں حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے سامنے چیلنجز کہیں زیادہ بڑے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے مسلمان اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ہندتو طاقتوں کا مقابلہ کرپائیں گے۔کیا ان کے پاس اس کی صلاحیت ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کا جرمن یہود سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔کیوں کہ دونوں کے معاشی ، اقتصادی حالات میں فرق ہے۔اس لئے اس وقت جرمن یہود کی حالت زیادہ بہتر ہے۔
پروفیسر مجیب الرحمن نے کتا ب لکھنے کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 2014کے بعد بھارت کے حالات میں تیزی آئی ہے۔مسلم مخالف جذبات ، نعرے بازی اور مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل پر بات اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں نے آزادی کے بعد مسلمانوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں حصہ داری کے بغیر کوئی بھی کمیونیٹی ترقی نہیں کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 14فیصد ہے تاہم آج تک پارلیمنٹ میں آباد ی کے لحاظ سے مسلمانو ں کی نمائندگی نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت اور اور موجودہ حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پارلیمانی انتخاب میں صرف ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے اور اس امیدوار کو وزیر اعظم کے روڈ شو میں گاڑی میں کھڑا ہونے نہیں دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکولر سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی خود اس معاملے میں بہتر نہیں رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حالات اس لئے تشویش ناک ہے کہ ڈی مسلمانائزیشن کے دور میں بھارت داخل ہوچکا ہے ۔جہاں مسلمانوں کی ہرایک موجودگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی کتاب اپنے آپ میں مکمل نہیں ہوتی ہے تاہم انہو ں نے بھارت کے مسلمانوں کی صورت حال کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر حالات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی شمولیت پر توجہ دینے چاہیے ۔
اس پینل ڈسکیشن کونورا للہ جاوید نے موڈریٹ کیا جب کہ پروگرام میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی ۔جس میں پروفیسر عبدا لمتین ، پروفیسر ربیع الاسلام ، پروفیسر صفورا زرگر، پروفیسر عنایت اللہ خان ، پروفیسر سعید الرحمن ،صحافی آفاق احمد، صحافی فاروق احمد ، صحافی شبانہ حیات موجود تھیں ۔