Friday, December 13, 2024
homeاہم خبریںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت قانون، قیام کی تاریخ یا...

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت قانون، قیام کی تاریخ یا غیر اقلیتو ں کے ذریعہ انتظام کئے جانے کی وجہ سے ختم نہیں ہوگی: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ تعین کرنے کے لیے کہ آیا کوئی ادارہ اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ادارہ کس نے قائم کیا۔

نئی دہلی : انصاف نیوز آن لائن

سپریم کورٹ کے سات ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے جمعہ کو 4-3 کی اکثریت سےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی اقلیتی حیثیت محض اس لیے ختم نہیں ہوگی کہ پارلیمنٹ ایسے انسٹی ٹیوٹ کو ریگولیٹ/ یا قانون بنائی ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی بنچ جس میں جسٹس سنجیو کھنہ، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا، دیپانکر دتا، منوج مشرا اور ستیش چندر شرما نے ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کے 1968 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا اقلیتی کردار پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون سازی کی وجہ سے ختم ہوگیا۔

عزیز پا شا بمقابلہ حکومت ہند عدالت نے یہ نظریہ اپنایا تھاکہ جب قانون نافذ ہوتا ہے تو اقلیتی کردار ختم ہوجاتا ہے۔ اے ایم یو اقلیت ہے یا نہیں، اس (آج) کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔عدالت نے کہا کہ یہ تعین کرنے کے لیے کہ آیا کوئی ادارہ اقلیتی ادارہ ہے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ادارہ کس نے قائم کیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کو انسٹی ٹیوٹ کی ابتداء پر غور کرنا ہوگا اور عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ادارے کے قیام کے پیچھے کس کا دماغ تھا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ زمین کے لیے فنڈز کس نے حاصل کیے اور اگر اقلیتی برادری نے مدد کی۔
کسی بھی ادارہ کا اقلیتی کردار صرف اس لئے ختم نہیں ہوگا کہ اس کو غیر اقلیتی اراکین چلاتے ہیں ۔

بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ ایک اقلیتی ادارہ ہونے کے لیے اسے صرف اقلیت کے ذریعے قائم کیا جانا چاہیے اور ضروری نہیں کہ اس کا انتظام اقلیتی اراکین کے زیر انتظام ہو۔اس طرح، کوئی ادارہ محض اس لیے اقلیتی ادارہ نہیں رہ جائے گا کہ حکومت قانون سازی کرکے اسے منظم کرتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ حکومت اقلیتی تعلیمی اداروں کو اس وقت تک ریگولیٹ کر سکتی ہے جب تک کہ اس سے ایسے ادارے کے اقلیتی کردار کی خلاف ورزی نہ ہو۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کسی بھی شہری کی طرف سے قائم کردہ تعلیمی ادارے کو آرٹیکل 19(6) کے تحت ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 30 کے تحت حق مطلق نہیں ہے۔ اقلیتی تعلیمی ادارے کے ریگولیشن کی آرٹیکل 19(6) کے تحت اجازت دی گئی ہے بشرطیکہ یہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 30 جو اقلیتوں کو تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کا انتظام کرنے کا بنیادی حق دیتا ہے، ان اداروں پر بھی نافذ ہوتا ہے جو آئین کے نفاذ سے قبل اقلیتوں نے قائم کیے تھے۔

آرٹیکل 30 کمزور ہو جائے گا اگر یہ صرف ان اداروں پر نافذ ہوتا ہے جو آئین کے نافذ ہونے کے بعد قائم ہوئے ہیں، اس طرح، اقلیت کے ذریعہ قائم کردہ تعلیمی ادارے جو آئین کے نافذ ہونے سے پہلے قائم ہوئے تھے، وہ بھی آرٹیکل 30 کے تحت چلیں گے۔

جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ستیش چندر شرما نے اکثریت سے اختلاف کیا۔

اختلافی فیصلہ

اختلاف کرنے والے ججوں سوریہ کانت، دتا اور شرما نےسوال کیا کہ سات ججوں کے پاس معاملہ دو ججوں کےبنچ کے ذریعہ بھیجا گیا ہے۔اختلافی بنچ نے کہا کہ میری رائے میں ریفرنس عدالتی حقانیت کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ چیف جسٹس کو ایک ناقابل برداشت پوزیشن میں ڈالتا ہے جہاں وہ تکنیکی مسائل کے پابند ہیں۔ ہم خود کو اس بات پر نہیں لا سکتے کہ دو ججوں کی بنچ کس طرح چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ سات رکنی آئینی بنچ کو تشکیل کرکے اس معاملے کی سماعت کریں۔اختلافی بنچ کہا کہ 2 ججوں کی بنچ کو 5 ججوں کے بنچ کو نظرانداز کرکے سات رکنی ججوں کے بنچ کے پاس بھیجنے کا کوئی اختیار نہیںہے۔

جسٹس دتہ نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا۔

جسٹس دتہ نے کہا کہ 2019 کے آرڈر آف ریفرنس کی جڑ 1981 کے انجمن آرڈر میں ہے۔ دو ججوں کے بنچ نے اسے سات ججوں کو ریفر کیا (1981 میں)۔ ہمارے بنچ کے اکثرجج اس کی اجازت دیتے ہیں مگر میں اس کو قبول نہیں کرتا ہوں کہ دو ججوں کی بنچ اس کو سات رکنی بنچ کو منتقل کردے ۔اس سے اندیشہ ہے کہ کہ کل دو ججوں کی بنچ ’15 ججوں کو بنیادی ڈھانچے کے نظریے کا از سر نو فیصلہ کرنے دیں، میں نے ریفرنس آرڈر کو مکمل طور پر غیر ضروری قرار دیا ہے۔

جسٹس شرما نے بھی کہا کہ دو جج اس معاملے کو براہ راست سات ججوں کے پاس نہیں بھیج سکتے تھے۔
مقدمہ کے میرٹ پر جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ کوئی ادارہ اقلیتی حیثیت کا دعویٰ صرف اس صورت میں کر سکتا ہے جب وہ اقلیت کے ذریعے قائم اور زیر انتظام ہو۔

جسٹس کانت نے کہاکہ اقلیتی درجہ حاصل کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں یونیورسٹیاں بھی حقدار ہوسکتی ہے مگر اس کیلئے آرٹیکل 30 کے تحت قیام اور نظم و نسق کی دونوں شرائط کو پورا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس معیار پر اترتی ہے ۔اس کا فیصلہ ایک باقاعدہ بنچ کرے گا۔

جسٹس دتا نے واضح طور پر کہا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور آرٹیکل 30 کے تحت نہیں آسکتا ہے۔

جسٹس شرما ایک قدم آگے بڑھے اور کہا کہ

آرٹیکل 30 کا بنیادی مقصد اکثریت کے ساتھ کسی بھی ترجیحی سلوک کو روکنا ہے اور اس طرح سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہے۔ یہ سمجھنا کہ ملک کی اقلیتوں کو تعلیم کے حصول کے لیے محفوظ پناہ گاہ کی ضرورت ہے، غلط ہے اور اقلیتیں مرکزی دھارے کا حصہ ہیں جو اب مساوی مواقع میں حصہ لے رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی حیثیت کا دعویٰ کرنے کے لیے ایک ادارہ نہ صرف اقلیت کے ذریعے قائم کیا جانا چاہیے بلکہ اس کا نظم و نسق بھی اقلیتوں کے ذریعہ چلایا جانا چاہیے ۔ان دونوں شرائط کی موجودگی میں ہی کوئی ادارہ اقلیتی ادارہ ہونے کا درجہ حاصل کرسکتا ہے

جسٹس شرما نے کہا کہ

میہ فیصلہ درخواستوں کے ایک بیچ میں آیا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) آئین ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ کا حقدار ہے۔

سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعد فروری میں اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

پس منظر

اس معاملے میں شامل قانون کے سوالات آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ دینے کے پیرامیٹرز سے متعلق ہیں، اور کیا پارلیمانی قانون کے تحت قائم کردہ مرکزی فنڈ سے چلنے والی یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت والی بنچ نے فروری 2019 میں یہ معاملہ سات ججوں کے پاس بھیج دیا تھا۔

اے ایم یو کو سپریم کورٹ نے 1968 میں ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے میں ایک مرکزی یونیورسٹی قرار دیا تھا۔ مذکورہ معاملے میں، عدالت نے کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کے تحت اقلیتی درجہ کسی سنٹرل یونیورسٹی کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کی گئی تھی۔

اس کے بعد، ایس عزیز باشا میں پیدا ہونے والے مسئلے کو انجمن رحمانیہ اور آر ایس کے معاملے میں سپریم کورٹ کے مورخہ 26 نومبر 1981 کے حکم کے ذریعے سات ججوں پر مشتمل بنچ کو بھیجا گیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو بعد میں 1920 کے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم لا کر بحال کر دیا گیا۔ یہ ترمیم 1981 میں لائی گئی تھی۔اسے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے کرمسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کو ختم کردیا۔جب اپیلیں سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آئیں تو تین ججوں کی بنچ نے اس معاملے کو پانچ ججوں کی بنچ کے سامنے رکھنے کے بجائے اسے سات ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیا۔

.قابل ذکر ہے کہ 2016 میں مرکزی حکومت نے اس معاملے میں اپنی اپیل واپس لے لی تھی۔اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی، اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ایڈوکیٹ کنو اگروال کے ساتھ مرکزی حکومت کی نمائندگی کی۔سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون اے ایم یو کی طرف سے پیش ہوئے۔سینئر وکیل کپل سبل اے ایم یو اولڈ بوائز (سابق طلباء) ایسوسی ایشن کے لیے پیش ہوئے۔سینئر ایڈوکیٹ شادان فراسات اور ایڈووکیٹ ہرشیکا جین، امان نقوی نتاشا مہیشوری اور گوتم بھاٹیہ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے، ایک حاجی مقیت علی قریشی۔سینئر ایڈووکیٹ سلمان خورشید، ایم آر شمشاد اور ایڈوکیٹ انس تنویر بھی کچھ درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے۔سینئر ایڈوکیٹ راکیش دویدی اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کی مخالفت کرنے والے نجی جواب دہندہ (ایک وویک کاسانہ) کی طرف سے پیش ہوئے۔سینئر وکیل نیرج کشن کول، یتندر سنگھ، گرو کرشن کمار، ونے نوارے اور ارچنا پاٹھک ڈیو دیگر جواب دہندگان کی طرف سے پیش ہوئے۔

بشکریہ بنچ اینڈ بار

متعلقہ خبریں

تازہ ترین