Saturday, July 27, 2024
homeبنگالمسجد ناخدا کے نائب امام کے پا س تلہٹی مارکیٹ میں دو...

مسجد ناخدا کے نائب امام کے پا س تلہٹی مارکیٹ میں دو دوکان۔چار فلیٹ۔کہاں سے آیا؟ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی میٹنگ میں زکریا اسٹریٹ کے مقامی تاجر کا انکشاف۔۔ناخدا مسجد کا پورا تنازع کا مال سے تعلق رکھتا ہے۔۔میٹنگ میں قاری شفیق کے گالی گلوج کے شکار ہوچکے لوگوں نے اپنی اپنی کہانیاں بیان کی-

کلکتہ(انصاف نیو ز آن لائن)

مسجد ناخدا میں نائب امام، موذن اور متولیوں کے درمیان تنازع وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شرمناک اور افسوس ناک مرحلے میں داخل ہوتا جارہا ہے۔اس دور ان جمعیۃ علماہند مغربی بنگال کے صدر مولانا صدیق اللہ اور ریڈ روڈ پر امام عید قاری فضل الرحمن نے اس پورے معاملے میں مداخلت کرنے اور تنازع کو ختم کرنے اپنا کردارا ادا کرنے سے انکا ر کردیا ہے۔ان دونوں کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے چوں کہ حکمراں جماعت ترنمول کانگریس، چند مقامی طاقتور گروپ کی نائب امام کو حمایت حاصل ہے۔اس لئے وہ اس معامل میں مداخلت کرکے اپنی تھو تھو کرانا نہیں چاہتے ہیں۔

دوسری جانب مسجد ناخدا کے نائب امام قاری شفیق کے حوالے سے ہردن کچھ نئے نئے دعوے کئے جارہے ہیں۔گرچہ انصاف نیوز آن لائن ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کرتا ہے تاہم چوں کہ یہ دعوے میٹنگ اور عوامی پروگرام میں کئے جارہے ہیں۔اس لئے اس کی رپورٹنگ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔اگر اس کے جواب میں نائب امام قاری شفیق بیان جاری کریں گے تو انصاف نیوز اس کو بھی شائع کرے گا۔

مسجد ناخد کے تنازع کو حل کرنے کیلئے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال کے جنرل سیکریٹری حاجی عبد العزیز نے کل رات ایک میٹنگ بلائی تھی۔اس میٹنگ میں ناخدا مسجد زکریا اسٹریٹ میں نصف صدی سے زاید سالوں سے مقیم اور کاروباری شخصیت غلام مصطفی نے دعویٰ کیا کہ قاری شفیق کا تکبر اس وقت سات آسمان پر ہے۔کیوں کہ دولت اور طاقت دونوں کانشہ سوار ہے۔ انہیں ایک طرف حکمراں جماعت کے چند لیڈروں کی حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ان کے پاس بے پناہ دولت ہوگئی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک امام کے پاس تلہٹی بازار جیسی مہنگی مارکیٹ میں دو دوکان اور کلکتہ کے مہنگے علاقے میں چار فلیٹ۔غلام مصطفی نے کہا کہ قاری شفیق نے خود ان سے کہاکہ کلکتہ کے مسلمانوں میں چند لوگ ہی ایسے ہوں گے جو صبح میں دہلی جاتے ہوں اور شام میں لوٹ آتے ہوں۔غلام مصطفی نے کہا کہ قاری شفیق آپ کا یہ کمال نہیں بلکہ اس مصلی کا کمال ہے جہاں آپ بیٹھے ہیں۔

خیال رہے کہ ناخد مسجد کے نائب امام کی شکایت رہی ہے کہ انہیں محض تین ہزار روپے بطور تنخواہ دی جاتی ہے۔اتنی کم رقم سے خرچ چلانا مشکل ہے۔

غلام مصطفی نے کہا کہ 30 رمضان کو وہ خود فجر کی نماز میں موجود تھے۔فجرکی نماز میں جس طریقے سے قاری شفیق نے موذن عبد العزیز کو مائیک پھینک کر مارا اور اس کے بعد ان کے بچوں نے گالیاں دینی شروع کی وہ کسی مسلمان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے مسجد میں کھڑے ہوکر اس طریقے سے گالی گلوج کرے۔

اس دن فجر کی نماز میں موجود شہر کے سماجی شخصیت محمد عمر خان نے میٹنگ میں ناخدا مسجد کے پورے احوال سے واقف کرایا۔انہوں نے کہا کہ وہ خود قاری شفیق سے بات چیت کی اور ان سے موذنین کے ساتھ اختلافات کو حل کرنے کی اپیل کی مگر قاری شفیق نے ان کی بات نہیں مانی۔انہوں نے کہا کہ 30رمضان کو فجر کی نماز میں قاری شفیق کے ذریعہ موذن پر حملہ اور پھر اس کے بعد گالی گلوج خود انہوں نے سنی۔قاری شفیق کو میں نے اس وقت بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ گندی زبان کااستعمال کرکے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موذن عبد العزیز کو دیکھ لوں گا۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی اس میٹنگ میں کئی لوگوں نے قاری شفیق کے گالی گلوج کی کہانیاں بیان کی۔دعویٰ کیا کہ وہ نارمل حالت میں بات نہیں کرسکتے ہیں۔چند منٹوں بعد ہی گالی گلوج کرنے لگتے ہیں۔فحاش زبان کا استعمال وہ اس طرح سے کرتے ہیں۔اس سے بات کرنے والا شخص یا تو خود گرجائے یا پھر وہ شرافت کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔


میٹنگ کے دیگر شرکا
اس میٹنگ میں مچھوا پھل منڈی سے تعلق رکھنے والے محمد ممتازنے سوال کھڑا کیا مسجد ناخد میں بیٹھ کر یہ کہنا کہ،،مسجد رنڈی خانہ بن گیا ہے۔۔یا پھرموذن پردربان کے حوالے سے الزام لگانا کہ اس نے مسجدمیں زنا کیا ہے۔جب کہ دربان عبد القادرنے صاف صاف انکار کیا۔اس کا آڈیو موجود ہے اس نے ایسی گواہی نہیں دی ہے۔ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہوگا۔ایسے شخص کے پیچھے نماز جائز ہوگی۔
خلافت کمیٹی کے ممبر اسحاق ملک جو زکریا اسٹریٹ میں کارروبار کرتے ہیں۔قاری شفیق کے قریبی رہے ہیں۔نے بتایا کہ ناخدا مسجد میں تنازع کا تعلق صرف آمدنی سے ہے۔نکاح کے کاروبار سے ہرمہینے لاکھوں آمدنی ہوتی ہے۔اب اس آمدنی پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاری ہے۔اس کی وجہ سے یہ تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

دوسری جانب اس میٹنگ میں ایک کمیٹی بنائی ہے جو اس پورے تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔اس میٹنگ میں زیادہ تر لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مسجد میں ایک قابل،سند یافتہ اورمعتبر عالم دین کو مستقل امام کو بحال کیا جائے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین