نوراللہ جاوید
13 سال قبل ملک کے مشہور اور معتبر میگزین‘‘Economic and Political Weekly’’ نے جنوری 2009ء کے شمارے میں مانسون اجلاس میں بغیر کسی بحث و مباحثہ کے متعدد بل پاس کرانے پر Decline or Death of Parliament کے عنوان سے ایک طویل اداریہ شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ 1950ء سے ہی بھارتی پارلیمنٹ نشیب و فراز سے گزر رہی ہے مگر اس وقت پارلیمنٹ کی جو صورت حال ہے اس نے عاملہ و مقننہ کے درمیان توازن ہی کو ختم کر دیا ہے اور پارلیمنٹ کی حیثیت عضو معطل کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان (لوک سبھا اور راجیہ سبھا)اور ریاستی مقننہ(اسمبلیاں) سیاسی نمائندگی کی بنیادی اکائیاں ہیں، اور ریاست کے دیگر اداروں ایگزیکٹیو اور عدلیہ کے ساتھ ان کے تعلقات پارلیمانی نظام حکومت کے کام کرنے کے طریقے کو بہتر بناتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے کمزور ہونے سے دوسرے اداروں عاملہ (ایگزیکٹیو) اور عدلیہ کی طاقت میں غیر متناسب اضافہ ہوتا ہے کیونکہ پارلیمنٹ ہی وہ ادارہ ہے جو عاملہ کو جواب دہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے نظام کو ترتیب دیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارتی عوام جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کا تیزی سے کھوکھلا ہونا ہے۔ ان حالات نے ملک میں جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی نے اپنے اس اداریے میں جن بنیادوں پر پارلیمنٹ کے زوال کی طرف 13 سال قبل اشارہ کیا تھا اگر اس کی روشنی میں اور گزشتہ چار لوک سبھاؤں کے کام کاج کے طریقے کا جائزہ لیا جائے تو آج ’’پارلیمنٹ کی موت‘‘ کا حتمی اعلان شاید اس کے لیے ایک بہتر سرخی ہو گی۔
ملک کے پہلے وزیر قانون ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی میں آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی مقصد کی وضاحت کی تھی کہ پارلیمانی جمہوریت کا بنیادی مقصد مقننہ کے سامنے عاملہ کی جواب دہی ہے۔ یہ صدارتی نظام کے برعکس ہے جہاں احتساب نہیں بلکہ ایگزیکٹیو کا استحکام بنیادی مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔ بھارتی جمہوریہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے دوران 2000ء میں سابق صدر جمہوریہ کے آر نارائن نے مقننہ اور پارلیمنٹ کے تعلقات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’’آئین کا فریم ورک ایگزیکٹیو کے استحکام پر احتساب کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ نظام حکومت آمریت میں نہ پھسل جائے‘‘۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے طویل خطاب میں اس وقت کی اٹل بہاری واجپئی حکومت کو اشاروں میں تنقید کرتے ہوئے یاد دلایا تھا کہ پارلیمانی نظام کا انتخاب صرف برطانیہ کی تقلید میں نہیں کیا گیا تھا بلکہ آئین ساز اسمبلی نے کافی غور و فکر، اندیشہائے دور دراز کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کا انتخاب کیا تھا۔ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی حکومت کے ذریعہ آئین کی نظر ثانی اور اس کے لیے کمیشن قائم کیے جانے پر سابق صدر جمہوریہ نے سوال کیا تھا کہ ’’ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آئین نے ہمیں ناکام کیا ہے یا ہم نے آئین کو ناکام کیا ہے‘‘-
پارلیمنٹ کا اختتام پذیر حالیہ مانسون سیشن منی پور کے سوال پر سیشن کا بیشتر حصہ ہنگامہ آرائی کے نذر ہوگیا ۔اپوزیشن جماعتیں منی پور پر وزیر اعظم کے بیان کے مطالبے پر مصر رہیں جبکہ حکم راں جماعت کے نزدیک وزیر اعظم مودی کو بیان دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ منی پور کے معاملے میں جواب دیں گے۔ امیت شاہ سامنے بھی آئے اور جواب دینے کی کوشش بھی کی مگر اپوزیشن مطمئن نہیں ہوسکی۔اپوزیشن نے آخری حربے کے طور پر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی کیوں کہ عدم اعتماد کی تحریک کی روایت رہی ہے کہ تحریک کا اختتام وزیر اعظم کے جوابات سے ہوتا ہے۔ اپوزیشن نے بحث کے دوران منی پور، چین اور مہنگائی پر کئی اہم سوالات رکھے مگر اس کے جواب میں ٹریژری بنچ کی جانب سے جو کچھ کہا گیا اس سے کہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ حکومت جواب دینے کے حق میں ہے بلکہ اس نے اپوزیشن سے ہی سوالات پوچھ کر الٹا اسی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔حکم راں جماعت کے ممبروں نے جو انداز اختیار کیا اس نے مزید کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے عدم اعتماد کی تحریک کے اختتام پر دو گھنٹے سے زائد تقریر میں منی پور پر صرف چھ منٹ بات کی اور ان چھ منٹوں میں بھی انہوں نے منی پور کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کرنے سے گریز کیا اور وہ عمومی باتیں کہیں جو وہ پارلیمنٹ کے باہر کہتے رہے ہیں، جبکہ منی پور گزشتہ چار مہینوں سے جل رہا ہے۔ دو سو کے قریب افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے اور ہزاروں افراد کیمپوں میں مقیم ہیں۔ کوکی اور میتی قبائل کے درمیان عدم اعتماد اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے علاقوں میں نہیں جا پا رہے ہیں۔ انتظامیہ، پولیس تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔ منی پور کی حکومت پر جس میں میتیوں کی اکثریت ہے، کوکیوں پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ منی پور کے بحران کے اثرات ناگالینڈ اور میزروم تک پھیل رہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ اس آگ کی لپیٹ میں شمال مشرق کی تمام ریاستیں آسکتی ہیں۔-
کیونکہ حکم راں جماعت کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ منی پور کے قبائلی بھارتی شہری نہیں ہیں بلکہ یہ میانمار سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تاریخی طور پر غلط ہے اور اس طرح کی بیان بازی سے ماحول مزید خراب ہوگا ۔سوال یہ ہے کہ آخر وزیر اعظم مودی جواب دہی سے کیوں گریز کر رہے ہیں، کیا وہ پارلیمنٹ کو اس قابل نہیں سمجھتے ہیں کہ اس کے سامنے جواب دیں؟ کیا سادہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو بے مہار اختیارات حاصل ہوتے ہیں؟ آئین کے آرٹیکل 75(3) کے تحت وزیر اعظم اور وزراء کونسل ایون کے سامنے جواب دہ ہے مگر آج صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم جنہوں نے امریکی سینٹ میں خطاب کے دوران بھارتی جمہوریت کو دنیا کی جمہوریت کی ماں قرار دے کر بھارتی میڈیا سے خوب واہ واہی وصول کی تھی، انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت سے جواب طلب کرنے اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر اپوزیشن کو ہی قصوروار ٹھہرا دیا۔ گویا اپوزیشن نے سوال کرکے جرم کر دیا ہو۔ جبکہ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ اپوزیشن کی ہے مگر آج اپوزیشن کے لیے پارلیمنٹ میں جگہ سکڑتی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اختتام پر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو وزیر اعظم مودی کا نیرو مودی سے موازنہ کرنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔راجیہ سبھا میں پہلے عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ کو معطل کیا گیا اور اس کے بعد ترنمول کانگریس کے ڈیریک اوبرائن اور عام آدمی پارٹی کے راگھو چڈھا کو معطل کردیا گیا۔ اسی طرح اس سیشن میں دو حیرت انگیز باتیں ہوئیں۔ ایک، پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے دوران بی جے پی نے منی پور سے تعلق رکھنے والے اپنے ممبر پارلیمنٹ کو بولنے کا موقع نہیں دیا۔ اسی طرح راجیہ سبھا میں جب بی جے پی کے اتحاد این پی ایف کے قبائلی رکن لورہو ففوج نے منی پور میں بولنے کی کوشش کی تو انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔ اب انہوں نے خود کہا ہے کہ انہیں بی جے پی نے بولنے سے روک دیا تھا۔
انگریزی اقتدار کے خاتمے کے بعد آئین سازوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ بھارت میں کونسی طرز حکومت اختیار کی جائے؟ آئین ساز اسمبلی نے اس پر کافی و غور فکر کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام کا انتخاب کیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی کے پیش نظر چند خدشات تھے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں اقتدار چند سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔1945ء میں ڈاکٹر امبیڈکر نے آل انڈیا شیڈیولڈ کاسٹ فیڈریشن کے سالانہ جلسے میں خطاب میں بھی پارلیمانی جمہوریت کی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکثریت کی حکمرانی پارلیمانی حکومتوں کی بنیاد ہوتی ہے۔اکثریت اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کرتی ہے اور یہ ایک طرح کی اجتماعی ڈکٹیٹرشپ ہی ہوتی ہے۔اس میں اقلیت اور کمزور طبقات کی آوازوں پر توجہ دینے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ مگر اس دور میں ہی دنیا آمریت اور آمرانہ حکومتوں کے تباہ کن اثرات سے زیر بار تھی۔ اس کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوریت کی لہر آئی اور پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ہم آہنگ کرنے کی طرف دنیا بھر کی توجہ مبذول ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہمارا ملک مستثنی نہیں رہ سکتا تھا۔دوسرے یہ کہ بھارت جیسے انتہائی متنوع، تکثیری اور متفاوت ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت ایک بہتر راستہ ہوسکتا تھا جہاں کثیر الجماعتی نظام کی موجودگی میں متنوع نمائندگی اور مقننہ کے ساتھ بہتر ہم آہنگی کے ساتھ نظام حکومت چلایا جاسکتا ہے۔ آئین ساز اسمبلی کے ممبروں کا خیال تھا کہ اسے صرف ایک پارلیمانی جمہوریت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے جہاں ایگزیکٹیو کا انتخاب مقننہ سے ہوگا اور وہ اپنی مدت پوری کرنے کے لیے اس کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت دونوں کے لیے مناسب احترام کا مظاہرہ کرے اور تعاون باہمی سے کام کرے۔ چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنانے کے لیے آزاد اداروں کو فروغ دیا جائے گا، سماجی اور سیاسی طور پر وسیع تر قومی اور شہریوں کی حصہ داری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری جگہیں پیدا کی جائیں گی۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی میں اپنی اختتامی تقریر میں مقننہ (پارلیمنٹ) اور ایگزیکیٹیو کے درمیان ہم آہنگی، باہمی انحصار، تعاون اور جواب دہی کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ مساوات، قانون کی حکمرانی، اظہار رائے کی آزادی، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، عالمی بالغ رائے دہی، تعاون پر مبنی وفاقیت، اختیارات کی تقسیم اور سب سے بڑھ کر جمہوریت، دنیا کے سب سے طویل تحریری آئین کے بنیادی اصول تھے۔ آزادی کے بعد ابتدائی سالوں میں اپوزیشن معمولی اقلیت میں تھی۔ اس دور میں نہ صرف اپوزیشن کی آواز سنی جاتی تھی بلکہ اس کا احترام بھی کیا جاتا تھا۔ پنڈت نہرو اپنی تقاریر میں بار بار دہراتے تھے کہ پارلیمانی نظام کے استحکام کے لیے اپوزیشن لازمی ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی متعدد مرتبہ اس کا اعتراف کر چکے تھے کہ نہرو کے مقابلے میں جونیر سیاست داں ہونے کے باوجود ان کی تنقیدوں کو نہرو سنجیدگی سے سنتے تھے اور بسا اوقات سراہتے بھی تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج وہی جذبہ ملک کے وزیر اعظم میں ہے۔ آج وزیر اعظم مودی اپوزیشن کے ہر سوال اور تنقید کو سفاکانہ اور ظالمانہ و تمسخرانہ انداز میں رد کر دیتے ہیں اور اس پر تالیاں بجواتے ہیں ۔-
بھارت کی پارلیمانی جمہوریت پر کئی ماہرین سیاست نے مختلف کتابیں لکھیں ہیں جس میں بھارت میں جمہوری نظام کے استحکام اور تسلسل اور پھر اس کے زوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ماہر سیاسیات پروفیسر آشوتوش ورشنی نے 1998ء میں ’’جمہوریت کیوں زندہ رہتی ہے: بھارت نے مشکل حالات کا مقابلہ کیسے کیا‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھتے ہوئے بھارتی جمہوریت کے بارے میں پر امید نظریہ اپناتے ہوئے دلیل دی کہ بھارت کی جمہوریت نے تاریخی طور پر تمام مشکلات کا مقابلہ کیا ہے اور اس میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی شرکت، ادارہ جاتی خود مختاری اور آزاد پریس کے ذریعے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ محض دو دہائیوں بعد ہی پروفیسر آشوتوش ورشنی کے نظریہ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے 2021ء میں ’’دی رائز اینڈ فال‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھا ’’بھارت کی جمہوریت کا امتیاز ختم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھارت کی جمہوریت میں ایک ہی آواز بولی جا رہی ہے۔ شہریوں کے فرائض کو شہریوں کے حقوق پر ترجیح دی جارہی ہے، شہریوں کی آزادی پر فرماں برداری کو مراعات دی جاتی ہیں۔ نظریاتی یکسانیت قائم کرنے کے لیے خوف کا استعمال کیا جا رہا ہے اور انتظامی طاقت کے ذریعہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو کمزور کیا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ بھارت کی جمہوریت کے تئیں پر امید نظریہ رکھنے والے پروفیسر آشوتوش ورشنی محض دو دہائیوں میں بھارت کی جمہوریت کے تئیں اس قدر مایوس کیوں ہو گئے ہیں؟ انہیں ایسا کیوں محسوس ہونے لگا ہے کہ بھارت کی جمہوریت میں جواب دہی اور احتساب کا فقدان ہو رہا ہے؟ کیا یہ صورت حال اچانک پیدا ہوئی ہے؟
پارلیمنٹ کا زوال اعداد و شمار کی روشنی میں
پی آر ایس لیجسلیٹیو ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق1952سے 1970کے درمیان پارلیمنٹ سالانہ اوسطاً 121دنوں میں مشتمل ہوتی تھی۔2022میں یہ کم ہوکر محض 56دن رہ گئی ہے۔لوک سبھا میں اوسطاً ایک قانون پاس کرنے کےلیے 10منٹ سے بھی کم وقت لیا گیا جب کہ راجیہ سبھا میں قانون پاس کرنے کےلیے 30منٹ سے بھی کم وقت لیا گیا ۔فیناس بل جیسے اہم بل کو جس کا تعلق عوام سے براہ راست ہوتا ہے بغیر بحث کے منظور کرلینے کی روایت مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔پارلیمنٹ کے زوال کی دوسری علامت قائمہ کمیٹیوں کی شمولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جو کہ قانون سازی کے معاملات میں پارلیمانی کام کا بنیادی محور ہے۔ 15ویں لوک سبھا (2009سے 2014کے درمیان)میں 71فیصد بلوں کو پارلیمانی کمیٹیوں کو غو رو فکر کرنے کےلئے بھیجا گیا ۔16ویں لوک سبھا یعنی وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی مدت حکومت میں یہ کم ہوکر27فیصد ہوکر رہ گیا ہے۔17ویں لوک سبھا یعنی 2019کے بعد محض 13فیصد بل پارلیمانی کمیٹیوں کو بھیجے گئے ہیں جب کہ اس درمیان کئی اہم بل پاس کئے گئے جس کا ملک کے عام لوگوں سے تعلق ہے۔جس میں آرٹیکل 370کی منسوخی ، شہریت ترمیمی ایکٹ اور زرعی قوانین شامل ہیں ۔اس قدر اہم بلوں پر عوام کی شراکت داری کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جب کہ قانون سازی سے قبل مشاورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے زوال کی تیسری وجہ آرڈینینش کا بڑھتا رجحان ہے۔اس کا مقصد پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 123 کے مطابق آرڈیننس کا اجرا اسی وقت کیا جائے جب ’’کسی فوری کارروائی ‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ 2004 اور 2014 کے درمیان، ہر سال اوسطاً چھ آرڈیننس کے ساتھ 61 آرڈیننس پاس کیے گئے۔ 2014 کے بعد2022تک آٹھ سالوں میں 80 سے زیادہ آرڈیننس پاس کیے گئے۔یعنی سالانہ اوسطاً دس آرڈی نینس پاس کئے گئے۔
پارلیمانی نظام کے زوال چوتھی وجہ پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کا دورانیہ کم ہونا ہے۔پارلیمنٹ کے اصول 193، رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ کے رول 176 کے تحت اپوزیشن کو حکومت سے جواب طلبی کے اختیارات دئیے گئے ہیں ۔کوئی بھی رکن فوری عوامی اہمیت کا معاملہ اٹھا سکتا ہے اور متعلقہ وزیر کی توجہ مبذول کرواسکتا ہے، اور وزیر کو پیش کردہ خدشات کا جواب دینا ہوتا ہے۔ 14ویں اور 15ویں لوک سبھا میں 152 توجہ طلب نوٹسوں کی اجازت دی گئی۔ 16ویں اور 17ویں لوک سبھا میں یہ تعداد گھٹ کر 17ہوگئی۔14 ویں (2004-09)اور 15ویں لوک سبھا (2009سے 2014کے درمیان)میں کل 113 مختصر دورانیے کی بحثیں ہوئیں۔ 16ویں (2014سے 2019 )اور 17ویں (2019 تا موجودہ) لوک سبھا میں، یہ گھٹ کر 42 رہ گئی ہے۔ لوک سبھا کے اصول 55اورراجیہ سبھا کے اصول 60 کے تحت،کسی بھی جوابی سوال پر آدھے گھنٹے تک بحث ہوسکتی ہے، اگر ممبر محسوس کرے کہ جواب پر مزید وضاحت اوربحث کی ضرورت ہےتو وزیر مزید جواب طلب کرسکتا ہے۔14ویں اور 15ویں لوک سبھا میں اس طرح کی 21 بحثیں ہوئیں۔ 2014 کے بعد اس طرح کی صرف 5بحثیں ہوئی ہیں ۔اسی طرح کسی بھی ممبر کے ذریعہ اٹھائے گئے مسئلے پر وزیر یقین دہانی کرائیں گے کہ ان کے مسئلے پر توجہ دی جائے گی اور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کی جائے گی۔ 2004 اور 2014 کے درمیان اس طرح کی 99.38فیصد یقین دہانیوں پر عمل کیا گیا۔2014سے 2019کے درمیان صرف 79فیصد یقین دہانیوں پر عمل کیا گیا ۔2021 میں 30 فیصد سے کم یقین دہانیوں پر عمل درآمد کا اب تک کا سب سے کم ریکارڈ دیکھا گیا ہے۔
یہ اعدادو شمار واضح کرتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت کا انتخاب جس مقصد کےلئے کیا گیا تھا وہ فوت ہوتا جارہا ہے۔مقننہ کے سامنے ایگزیکیٹیو کی جوابدہی بے معنی اور توہین آمیزرہ گئی ہے۔بلکہ پارلیمنٹ اب ایگزیکیٹیو کے یکطرفہ فیصلوں پر اسٹامپ لگانے کا ذریعہ بن کر رہ رگئی ہے۔پارلیمانی طرز حکمرانی میں عام لوگوں کی شراکت، ہر ایک نقطہ نظر کی نمائندگی، غور و فکر اور اجتماعی طور پر جوابدہی ، پارلیمنٹ، صوبائی سمبلیوں کے ساتھ مشاورت اور تعاون ضروری ہے۔مگر اس وقت صوبائی اسمبلیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ایک ایسے وقت جب آزادی کا امرت مہوتسو منایا جارہا ہے اور بھارت کی جمہوریت نے 75سالہ سفر مکمل کرلیا ہے، یہ سوال اہم ہے کہ اگر پارلیمنٹ عضو معطل ہوجائے ، اسٹیک ہولڈرس سے مشاورت اوربات چیت کے بغیر قانون سازی کی جائے گی ؟ اور پارلیمانی کمیٹیاں بے اثر ہوجائیں تو جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کس طرح ہوگی؟ اس سوال کا جواب صاف اور سیدھاساہے۔جب مقننہ کے مقابلہ ایگزیکیٹیوطاقت ور ہوجاتی ہے تو احتساب کا رجحان ختم ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھا جاتا ہے، طلبا، کسانوں، خواتین اور بچوں کو احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے پر مارا پیٹا جاتا ہے اور گرفتار کیا جاتا ہے،مخالف آواز بلند کرنے پر شہریوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں، میڈیا پر حملےمعمول کا حصہ بن جاتے ہیں۔سیاسی مخالفین کو ایک سال سے زائد عرصے سے ماورائے عدالت بند کر دیا جاتا ہے اور شہریوں اور سیاسی مخالفین کی بلاوجہ جاسوسی کی جاتی ہے۔آج اس صورت حال کا ہم سب مشاہدہ کررہے ہیں ۔ مقننہ کا زوال اور حکمراں کا جوابدی سے گریز کا کلچرتحریک آزادی اور ملک کے معماروں کے وژن کے یکسرمنافی ہے۔یہ صورت حال پارلیمانی جمہوریت سے جمہوری ڈکٹیٹر شپ کی طرف سفر کا آغاز ہے ۔
علوم سیاست کے ماہرین نے لکھا ہے کہ بھارت میں ایک ایسے وقت میں پارلیمانی جمہوریت کی راہ اختیار کی گئی تھی جب بھارت میں صرف 20فیصد عوام خواندہ تھے۔خدشہ تھا کہ جمہوریت اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال نہ بن جائے ۔اس لیے عوامی شراکت کو یقینی بنانے کی لازماً کوشش کی گئی تھی۔اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے ذریعہ جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بھی بھارت کے جمہوری نظام کی گہری جڑوں کے سامنے محض 21مہینوں میں انتخابات کرانے پر مجبور ہوگئیں ۔کیوں کہ بھارت میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور ان کے تحفظات کے مؤثر ازالے کے لیے قائم ادارے ہردور میں آزادانہ اور خودمختاری سے کام کرنے کےلیے اپنی سی کوشش کرتے رہے اور ایگزیکیٹیو سے مزاحمت کرتے نظر آئے تھے ۔ اداروں کی خودمحتاری، تعاون باہمی اور اداروں کے احترام کے جذبے نے کسی بھی ادارے کو اپنے حدو د سے تجاوز کرنے کا موقع نہیں دیا۔عدلیہ اور مقننہ کے درمیان توازن قائم رہا۔ دونوں ادارے ایک دوسرے کا احترام کرتے رہے ۔مگر حالیہ برسوں میں جس طریقے سے اداروں پر حملے ہورہے ہیں اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی جوکوششیں ہورہی ہیں وہ ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب میں چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹانے کےلیے بل کا پیش کیا جانا اشارہ کرتا ہے کہ ایگزیکیٹیو اقتدار میں کسی کی بھی شراکت اورتعاون کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ بھارت کی سیاست میں شخصیت پرستی کا ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔پہلے بھی ملک میں مقبول لیڈران رہے ہیں مگر یہ لیڈران نظریات اور فکر سے اوپر نہیں ہوتے تھے۔اندراگاندھی نے اپنی شخصیت کو بڑا بناکر پیش کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہیں عوام نے ایمرجنسی کے بعد شکست سے دوچار کرکے جواب دے دیا مگر مودی ، یوگی، کیجریوال اور ممتا بنرجی جیسے پاپولر لیڈروں کے عروج نے کئی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ سیاسی جماعتیں داخلی جمہوریت سے محروم ہوگئی ہیں ۔جماعتوں میں اختلاف رائے کےلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ایسی صورت حال میں جمہوریت کا وجود آہستہ آہستہ ان لاکھوں ہندوستانیوں کے لیے ختم ہو جائے گا جو پسماندہ ہیں، انتہائی غربت کے شکار ہیں اور تاریخی طور پر مظلوم ہیں۔ وہ آئین کے وعدے اور دستور ساز اسمبلی کے وژن سے بہت دور ہیں۔ اس وقت بھارت کی جمہوریت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔اب اس ملک کے عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کونسی راہ متعین کریں گے؟۔وہ بھارت کےلئے ان اہداف کا تعین کرسکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں جمہوری ہو۔اگر ہم اس وقت نہیں کھڑے ہوئے تو تاریخ پھر کبھی ہم پر مہربان نہیں ہوگی۔