Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالماگر یہ مجمع مسلمانوں کا ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟

اگر یہ مجمع مسلمانوں کا ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟

فرحانہ فردوس
’’یہ کوئی غفلت نہیں ہے۔ یہ ایک سنگین مجرمانہ فعل ہے‘‘۔
’’کوویڈ ۔19 کو پھیلانا بھی دہشت گردی کے متراد ف ہے ،
وہ سب لوگ جو وائرس پھیلارہے ہیں غدار ہیں‘‘
۔’’حکومت کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے‘‘۔

جن لوگوں نے اس کا ارتکاب کیا ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے‘‘۔تبلیغی نہیں یہ طالبانی ہے۔غدار ہیں ۔
یہ وہ الفاظ ہے جوگزشتہ سال لاک ڈائون نافذ ہونے کے بعد تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آنے کے بعد بی جے پی لیڈران اور میڈیا کے لوگ بول رہے تھے۔جب کہ تبلیغی جماعت کا یہ اجتماع ملک بھر میں لاک ڈائون نافذہونے کی وجہ سے ہوا تھا۔اچانک لاک ڈائون کا اعلان ہونے کی وجہ سے تین ہزار افراد مرکز میں پھنس گئے تھے اور اسی طرح چند افراد ملک بھر کی مساجد میں مقیم تھے۔اس وقت میڈیا کے تنتر کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے ملک بھر میں کورونا ان ہی تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہوا ہے۔تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمان نشانے پر تھے۔ملک بھر میں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا ۔ملک بھر میں تبلیغوں کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ۔سیکڑوں افراد کوبے قصور جیل میں بند کردیا گیا ۔گرچہ اب ملک کی عدالتیں ان تبلیغیوں کو بے قصور قرار دے کر رہا کررہی ہیں ۔
جن سنگھی ذہنیت کے حاملین کا مقصد واضح تھا کہ تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کو الگ تھلگ کردیا جائے ۔اس لئے نفرت انگیز اور متعصب مہم کی وجہ سے ملک بھر میں مسلمانوںکوسخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔جب کہ اس وقت کورونا ملک بھر میں پھیلا بھی نہیں تھا ۔
تبلیغی جماعت کو لے کر مہینوں اخباروں اور نیوز چینلوں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی ۔یہ باورکرایا گیا کہ اگر تبلیغی جماعت کا اجتماع نہیں ہوتا تو ملک کورونا کی جنگ جیت چکا ہوتا ۔جب کہ یہ سراسر جھوٹ تھا اور بعد میں دنیا نے دیکھ بھی لیا۔
ذرا تصور کریں کہ اس وقت جب ملک کورونا وائرس کےخوفناک حد تک پھیلائو کا شکار ہے ۔دوسری لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اسپتالوں کے باہر مریضوں کی بھیڑ ہے، شمشان گھاٹ میں لاشوں کو جلانے کےلئے کئی کئی دن تک انتظار کرنا پڑرہا ہے ۔2020کے مقابلے کئی ہزار گنا یومیہ کیس آرہے ہیں تو ذرا غور کریں ایسے حالات میں کسی اور مذہب کے ماننے والے اترا کھنڈ کے کنبھ میلہ کی طرح لاکھوں کا اجتماع کرتے تو بی جے پی اوراس کی حلیف میڈیا کا رویہ کیا ہوتا ۔؟ گزشتہ سال کی مہم کو دیکھ کرلگتا ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہنگامہ برپا ہوتا۔بی جے پی لیڈران غصے میں آپے سے باہر ہوتے۔
مگر دیکھئے انتظامیہ کا رویہ کیا ہے؟ اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ دفاع کررہے ہیں کہ کنگا ماں کا آشیرواد ہے کورونا نہیں پھیلے گا؟۔کیا کسی ترقی یافتہ ملک کا وزیرا علیٰ اس طرح کی بکواس کرسکتا تھا۔
اگر یہ تبلیغی اجتماع ہوتا تو پھر اتراکھنڈ کے انسپکٹر جنرل کا یہ بیان ہوتا۔
“ہم لوگوں سے کوویڈ کے مناسب طرز عمل پر عمل کرنے کی مستقل اپیل کرتے ہیں۔ لیکن بہت زیادہ ہجوم کی وجہ سے پر چالان جاری کرنا ممکن نہیں ہے۔ معاشرتی دوری کو یقینی بنانا بہت مشکل ہے … بھگدڑ جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اگر ہم گھاٹوں پر معاشرتی فاصلے نافذ کرنے کی کوشش کریں گےتو حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔
ظاہر ہے کہ یقینی طور پر اس طرح کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ پولس انتظامیہ کے بیان سے غیض و غضب ظاہر ہوتا۔
، کنبھ کے لئے گنگا کے کنارے جمع ہونے والے لاکھوں لوگوں کے مجمع کے باوجود انتظامیہ کی نرمی اور میڈیا کی چشم پوشی واضح کرتا ہے کہ اس ملک کی انتظامیہ اور میڈیا دونوں دوہرے رویے کا شکار ہیں ۔
دراصل تبلیغی جماعت کے نام پر حکومت نے ملک بھر میں خوف وہراس پھیلانے کی کوشش کی اور لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ جانچ کی جاسکے ۔
کمبھ کے معاملے میں ، خطرات زیادہ واضح تھے۔کیوںکہ کورونا ملک بھر میں نئی شکل میں پھیل رہی تھی، اسپتالوں ، قبرستانوں میں بھیڑ بڑھ ری تھی ۔ایسے حالات میں اتراکھنڈ حکومت نہ صرف ہندو تہوار کو محدودپیمانے پر منعقد کرنے میں ناکام نہیں رہی ۔بلکہ اس نے لوگوں کو آنے کی ترغیب دی ۔
اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ترت سنگھ راوت نے 20 مارچ کو اعلان کیا کہ
میں دنیا بھر کے تمام عقیدت مندوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہریدوار آئیں اور مہاکمبھ کے دوران گنگا میں مقدس اشنان کریں۔ کوویڈ ۔19 کے نام پر کسی کو بھی نہیں روکا جائے گا کیونکہ ہمیں یقین اور بھگوان پر اعتماد ہے وہ اس وائرس کے خوف پر قابو پا لے گا۔
یہ یقین دہانی کرانے کہ باوجود کہ مرکزی حکومت کی تمام گائیڈ لائن پر عمل کیا جائے گا اور صرف آر ٹی-پی سی آر نیگیٹیو رکھنے والوں کو ہی آنے کی اجازت دی جائے گی ، راوت نے بار بار کہا کہ اس میں کوئی ”روک ٹوک“ یا رکاوٹیں نہیں آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سختی نہیں ہے۔”

راوت جنہوں نے عقیدے کو بنیاد بناکر کورونا کے خطرات کی پرواہ نہیں کی وہ اب اپنے دفاع میں کہنے لگے کہ کمبھ کو تبلیغی جماعت کے اجتماع سے تشبیہ نہیں دی جانی چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوا تھا اس وقت اس وائرس سے متعلق معلومات لوگوں کو کم تھی ، حکومت نے خود کہا تھا کہ وائرس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ہندوستان میں خطرات کم ہیں ۔حکومت کی جانب سے کوئی بھی گائیڈ لائن جاری نہیں تھی۔
اب جب کہ کورونا وائرس کی سنگینی اور اس کے خطرات سب پر واضح تھے اس باوجود راوت لوگوں کو کمبھ میلے میں آنے کی دعوت دے رہے تھے ۔اب جب کہ ہر طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں تو راوت کچھ اور بول رہے ہیں اور انتظامیہ بول رہی ہے کہ اتنے بڑ مجمعے پر کورونا گائیڈ لائن پر عمل کرنا مممکن نہیں تھا۔مگر سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی بھیڑ کیوں جمع ہوئی۔

2020 میں وزیر اعظم نریندر مودی نےہولی نہیں منانے کا فیصلہ کیا اور لوگوں کو پیغام دیا کہ وہ بھیڑ بھاڑ سے بچیں ۔مگر اس مرتبہ کنبھ میلہ کو لے کر وزیر اعظم خاموش ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایک طرف ملک میں سنگین طور پر کورونا پھیل رہا ہے ۔ریکارڈ کیسز آرہے ہیں تو دوسری طرف مودی کنبھ میلہ کو لے کر خاموش ہیں ۔
دراصل اگلے سال اترا کھنڈ میںا نتخابات ہونے والے ہیں ۔اس لئے اس مسئلے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ۔مگر سوال یہ ہے کہ ملک کے عوام کی سیکورٹی ، صحت کو انتخابات جیتنے کےلئےنظرانداز کرنا ایک ملک کے وزیر اعظم کےلئے شوبھا دیتا ہے۔کیا کوئی مودی اور راوت کا احتساب کرسکے گا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین