کلکتہ (انصاف نیوزآن لاین)
ایک ایسے وقت میں جب ہندو دائیں بازوں کے لوگ مساجد کے تقدس کو پاما ل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں، تاریخی مساجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں ایسے حالات میں کلکتہ شہر کے”تاریخی مسجد ناخدا“ میں نائب ائمہ اور موذنین کے درمیان تنازع اب سڑکوں پر آگیا ہے۔مسجد کے نائب موذنین پمفلٹ کی شکل میں اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں رکھ رہے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ تنازع کس بات کو لے کر اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ مسجد کے متولیا ن اس تنازع کو حل کرنے میں ناکام ہے؟۔دوسرا سوال یہ ہے کہ 30رمضان 2مئی کو نماز فجر میں نائب امام قاری محمد شفیق اور موذن عبد العزیز کے درمیان جو کچھ ہوا۔اس واقعہ پر انکوائری کمیٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟مگر ان سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟گزشتہ کئی ہفتوں سے مسجد کے موذنین کی جانب سے جاری کئے پمفلٹ شہر میں گردش کررہے ہیں، اس میں سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔پہلے ان الزامات کو مرحلہ وار ملاحظہ فرمائیں۔
(1) 2مئی 2022کو فجر کی نماز کے دوران مسجد کے نائب امام قاری شفیق الرحمن نے اچانک مسجد کے موذن حافظ عبدالعزیز کے ساتھ بدسلوکی اور گالی گلوج کی۔اس کے بعد سے ہی یہ معاملہ سوشل میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔
(2)ناخدا مسجد کے متولیوں نے مسجد میں نکاح اور اس کے معاوضے کی رقم طے کررکھی ہے۔اس کے علاوہ اس رقم سے امام، موذنین اور دربانوں کی حصہ داری بھی طے کررکھی ہے۔مگر مسجد کے نائب امام قاری محمد شفیق گزشتہ کئی سالوں سے من مانے طریقے سے نکاح کی فیس وصول کررہے ہیں۔ جب کہ مسجد کے متولیو ں نے نکاح کی فیس 2700روپے طے کررکھا ہے۔قاری محمد شفیق پانچ ہزار روپے سے لے کر 10ہزار روپے تک نکاح کی فیس وصول کررہے تھے۔اس کے باوجود وہ مسجد کے موذنین اور دربانوں کو پرانے 2700روپے کی رقم کے اعتبار سے حصہ داری دے رہے ہیں۔
(3)ہم موذنین نے قاری محمد شفیق اور قاری نور عالم سے درخواست کی کہ نکاح کیلئے جتنی فیس لی جارہی ہے اس اعتبار سے حصہ داری دی جائے۔ہم لوگوں نے ان دونوں حضرات سے متعدد مرتبہ درخواست کی مگر ان دونوں نائب ائمہ نے سنی ان سنی کردی اور اس کے بعد سے ہی ہمارے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہے۔
(4)گزشتہ سال 2 اکتوبر 2022 کو قاری محمد شفیق کے بھتیجے محمد نظام الدین نے مسجد ناخدا کے احاطے میں نکاح پڑھایا جو مکمل طورپر غیر قانونی ہے۔ مسجد کے متولیوں نے نائب ائمہ قاری محمد شفیق اور قاری نور عالم کو ہی نکاح پڑھانے کا حقدار بنارکھا ہے۔ ان دونوں کے علاوکسی کو بھی مسجد میں نکاح پڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے باوجود قاری محمد شفیق کے بھتیجے نکاح پڑھاتے رہے ہیں۔علاوہ ازیں قاری محمد شفیق دو طرح کا نکا ح نامہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک مسجد ناخدا کا ہے، دوسرا گریش پارک تھانے کے علاقے کاہے۔ ہم لوگوں نے اس کی شکایت مسجد کے متولی ناصر ابراہیم صاحب سے کی۔ ناصر ابراہیم نے جب قاری محمد شفیق سے بات کی تو وہ ہم لوگوں کو مغلظات دینے لگے۔ ایسی زبانیں استعمال کرنے لگے اس کی امید ایک امام کیا کسی سچے مسلما ن سے نہیں کی جاسکتی ہے۔(4) قاری محمد شفیق نے اپنے بھتیجے محمد نظام الدین اور دیگر بھتیجو ں کے ذریعے موذنین کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی۔ چونکہ قاری محمد شفیق کا اثر و رسوخ ہے تو ان کے اشارے پر پولس افسران نے ہمیں بہت ہی زیادہ پریشان کیا۔ دھمکایا گیا، ہراسان کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی مگر ہم لوگوں نے صبر کیا۔
(5)قاری محمد شفیق نے مسجد کے دو کمرے کواپنے تحویل میں لے رکھا ہے۔ایک میں ان کے دو سے تین بھتیجے رہتے ہیں۔ جب کہ مسجد میں غیر متعلقہ افراد کو رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسجد کے آفس میں نصب کیمرے کا رخ موڑ دیا گیاہے۔
(6)قاری محمد شفیق نے ہم لوگوں نے پر الزام عائد کیا کہ ہم لوگ غیر قانونی طریقے سے نکاح پڑھاتے ہیں۔ جب ہم نے ثبوت مانگے تو انہوں نے کہاکہ میرے پاس ثبوت نہیں ہے مگر مجھے یقین ہے۔ ہم لوگوں نے کہا کہ ہمیں ثبوت دیں۔اگر ہم قصور وار ہیں تو اس کی سزا دی جائے۔ورنہ الزام واپس لیا جائے۔مگر وہ مسلسل ہم لوگوں کو دھمکی دیتے رہےاور گالی گلو ج کرتے رہے۔
اس درمیان 2مئی 2022کو فجرکی نماز کے دوران مسجد کے موذن حافظ عبد العزیز پر دعا کے دوران مائیک سے حملہ کیا۔اور ان کے بھتیجےاور دیگررشتہ دار مسجد میں ہاکی کا ڈنڈا لے کر آگئے اور گالی گلوج کرنے لگے۔ مسجد کے مصلیان اگر درمیان میں نہیں آتے تو حافظ عبد العزیز کے ساتھ یہ لوگ بے رحمانہ انداز میں مارپیٹ کرسکتے تھے۔
مسجد کے موذنین کی جانب سے یہ الزامات عائد کئے جانے کے بعد مسجد کے متولی ناصر ابراہیم سے انصاف نیوز کے نمائندے نے بات کی کہ ایک ایسے وقت میں جب مساجد و مدارس مسلم مخالف قوتوں کے نشانے پر ہیں ایسے میں کلکتہ شہر کے جامع مسجد ناخدا میں یہ سب کیا چل رہا ہے؟۔اتنے سارے معاملات رونما ہونے کے باوجود مسجد کے متولیوں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟۔ فجر کی نماز کے دوران تنازع ہونا اور امام و موذن کا آپس میں دست و گریباں ہوجانا اپنے آپ میں شرم کی بات ہے۔اس کے باوجود مسجد کے متولیوں نے قصور واروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟۔ اسی طرح گزشتہ سال مسجد میں غیر متعلقہ افراد جو نائب امام قاری محمد شفیق کے رشتہ دار کی جانب سے مسجد کے موذنین پر ایف آئی آر درج کرائی۔ مسجد کا معاملہ پولس تھانہ میں کیوں پہنچا؟ مسجد انتظامیہ نے اپنی جانب سے اس پورے معاملے میں کارروائی کیوں نہیں کی ہے۔
مسجد کے متولی ناصر ابراہیم نے اعتراف کیا کہ سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے ہم لوگ کوئی بھی بڑی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کے سامنے سارے مسائل ہیں، ہم نے بات چیت کرکے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب تک مسائل حل نہیں ہوسکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مسجد ناخدا میں نکاح کی کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی مگر مسجد کے سابق امام مرحوم مولانا صابر کے دور میں اس کی شروعات ہوئی۔ ہم لوگوں نے من مانی طریقے سے فیس لئے جانے پر روک لگانے کیلئے ایک رقم متعین کردیا۔اس وقت سے ہی فیس کی رقم متعین ہے۔اس وقت نکاح کی فیس زیادہ سے زیادہ 2700لینے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ اس رقم کو مسجد کے امام، موذن،دربان اور خادم افراد کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں ہر ایک کی حصہ داری ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ہمیں شکایات موصول ہوئی ہے کہ من مانے طریقے سے فیس لی جارہی ہے۔ ہم نے اس پر روک لگانے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پورا تنازع اسی رقم کو لے کر ہے۔مسجد کے متولی ناصر ابراہیم نے اقرارکیا کہ مسجد میں من مانی ہورہی ہے۔ ہمیں شکایات مل رہی ہیں مگر ہم لوگ مجبور ہیں۔ سیاسی اثرو رسوخ انہیں حاصل ہے۔مسجد کے نائب ائمہ کے سیاسی تعلقات گہرے ہیں مقامی لیڈروں کی بھی انہیں حمایت حاصل ہے ایسے میں ہم کوئی کارروائی کریں گے تو حالات بہترہونے کے بجائے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور ہم لوگ اس لئے سب کو لے کر چلنے کی کوشش کررہے ہیں
۔ناصر ابراہیم نے کہا کہ فجر کی نماز کے دوران جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ مسجد کے مصلیان موجود تھے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس معاملے کو مصلیان اٹھاتے مگر سارا بوجھ ہم متولیوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
نائب ائمہ اور موذنین کے کم تنخواہ ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ مسجد کی آمدنی بہت ہی کم ہے۔ اخراجات کافی ہیں۔ جو آمدنی آتی ہے اس کے مطابق ہی ہم تنخواہ دیتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ سوال کرتے ہیں کہ جب تنخواہ کم ہے اس کے باوجود مسجد کے نائب ائمہ اور موذنین نے حج کہاں سے کرلیا اور ان کے پاس اپنے مکانات کہاں سے آگئے ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ شان و شوکت مسجد ناخدا کے ذریعہ ہی حاصل کیا ہے۔
مسجد کے احاطے میں نائب امام کے رشتہ داروں کے قیام کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں نوٹس جاری کیا ہے کہ مسجد کے احاطے اور اس کے کمرے میں رشتہ داروں کو رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔انہیں بھی اللہ خوف ہونا چاہیے کہ مسجد اللہ کا گھرہے اس کا بے جا استعمال نہیں کیا جائے۔
مسجد کے سابق امام مولانا صابر کے انتقال کو کم و بیش دو دہائی گزرجانے کے باوجود اب تک مستقل امام کی بحالی کیوں نہیں ہوئی۔ اس سوال کے جواب میں نا صر ابراہیم نے کہا کہ ہم لوگ کی تلاش جاری ہے۔ ہمارے سامنے کئی مسائل ہیں اس لئے مشکلات کا سامنا ہے۔آمدنی محدود ہے اور قابل شخصیت کو بڑی تنخواہ بھی دینی پڑے گی۔اس کے علاوہ ایک ایسے شخص کی تلاش کی جارہی ہے جو تمام طبقات کو قبول ہو۔اسی وجہ سے اب تک نائب ائمہ سے ہی کام چلایا جارہا ہے۔
ناصر ابراہیم سے گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ بہت ہی زیادہ دباؤ میں ہے۔اور کسی بھی مسئلے میں کھل کر بات کرنے کے حق میں نہیں تھے تاہم مسجد ناخدا کی یہ صورت حا ل کسی بڑے ہنگامے کا پیش خیمہ ہونے کا خطرہ ہے۔ایسے میں علاقے کے ذمہ داران اور مقامی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرے اور جانچ کمیٹی قائم کی جائے۔
کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جواب ملنے ضروری ہیں۔
مسجد کے سی سی ٹی وی کیمرے مکمل طور پر کام کیوں نہیں کررہے ہیں، کئی کیمرے کا رخ اوپر کی جانب کیوں کردیا گیا ہے؟
مسجد کے متولی کی اجازت کے بغیر مسجد کے اندر موذنین اور نائب امام کے رشتہ داروں کے درمیان تنازع کو پولس اسٹیشن میں کیوں لے جایا گیا۔ کیا اس سے مسجد کی بدنامی نہیں ہوگی؟۔
مسجد کے متولیان کی اجازت کے بغیر اپنے رشتہ داروں کو مسجد میں قیام کرانا کہاں تک درست ہے؟ اس پر مستزاد نکاح پڑھوانا؟۔ اس کے جواز میں کہا جارہا ہے کہ نکاح نامہ پر ان کا دستخط نہیں ہوتا ہے۔نکاح کوئی اور پڑھائے اور دستخط کوئی اور کرے کیا یہ جعلی کام نہیں ہے؟
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب نکاح پڑھانے کی فیس متعین ہے اور 2700روپے زیادہ سے زیادہ لینے کی ہدایت ہے تو پھر زیادہ رقم کیوں لی جاتی ہے؟۔جب کہ مسجد میں اکثر غریب طبقہ اورپریمی جوڑے شرعی حددود میں رہنے کیلئے نکاح پڑھوانے کیلئے آتے ہیں۔
ان سب میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مسجد کے مصلیٰ پر امام اور موذن کے درمیان تنازع اور ہنگامہ آرائی کو کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟۔اتنا بڑا واقعہ رونما ہونے کے ڈیڑھ ماہ بعد بھی قصور واروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟