Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالممفتی محفوظ الرحمٰن عثمانی :جس نے صحرا کو گل گلزار کردیا

مفتی محفوظ الرحمٰن عثمانی :جس نے صحرا کو گل گلزار کردیا

نوراللہ جاوید
(دوسری قسط)
2017کے اواخر میں برادر مکر م ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی نے فرمائش کی کہ ان کی کتاب ’’متاع زندگی ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آنے کےلئے تیار ہے ۔ اس ایڈیشن کےلئے ابتدائیہ کے طور پر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ سے متعلق کچھ آپ کو بھی تحریر کرنی ہے، میں نے پہلےہی لمحے میں یہ کہہ کر معذرت کرنے کی کوشش کی کہ میرے لئے زندہ شخصیات پر توصیفی مضامین لکھنابہت ہی مشکل ہے ، بہت حدتک اس سے گریز بھی کرتا رہا ہوں ، میرے پیش نظر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ قول ہمیشہ رہا ہے:
مَن کانَ مْستَنًّا ، فَلیَستَنَّ بمن قد ماتَ ، فانَّ الحیَّ لا تْؤمَنْ علیہ الفِتنَۃْ ، أولئک اصحابْ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، کانوا افضلَ ھذہ الامۃ ابرَّھا قلوبًا ، واعمقَھا علمًا ، واقلَّھا تکلّْفًا ، اختارھم اللہ لصحبۃ نبیِّہ ، ولاقامۃ دِینہ ، فاعرِفوا لھم فضلَھم ، واتبعْوھم علی اثرھم ، وتمسَّکوا بما استَطَعتْم من اخلاقِھم وسیرِھم ، فانھم کانوا علی الھدَی المستقیم۔
چناں چہ کسی بھی شخصیت کے انتقال کے فوری بعد تاثراتی مضامین لکھنے سے بھی گریز کرتا ہوں کہ کہیں جذبات وعقیدت میں غلو نہ کرجائوں ۔ ہفتہ ،دس دن بعد جب جدائی کے غم کے اثرات کم ہوجاتے ہیں تو پھر میں قلم اٹھاتا ہوں۔ مگر مفتی محفوظ الرحمان عثمانی سے دیرینہ تعلق اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کو نظر انداز نہ کرسکا اور اس وقت میں نے ’’عزم و ثبات کے پیکر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ۔چوں کہ میں ان کے حضر کا بھی ساتھی رہا ہوں اور سفر میں معیت بھی حاصل رہی ہے، ساتھ میں کام کرنے کی وجہ سے اختلافات بھی ہوئے اورپھر علاحدگی بھی ہوئی ۔اختلافات اس قدر شدید ہوئے کہ تعلقات منقطع ہوگئے،مگر وہ لمحہ بھی آیا جب انہوں نے آگے بڑھ کراختلافات کا ازالہ اس طرح سے کیاکہ پہلے سے زیادہ گرم جوشی، محبت و عنایات اور کرم فرمائی کے ساتھ اس طرح تعلقات قائم ہوئے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک نبھایا۔کسی بھی شخصیت کو پرکھنے اور سمجھنے کےلئے 20سال کی مدت کوئی کم نہیں ہوتی ہے ۔مذکورہ مضمون 20سالہ مشا ہدات وتجربات کا اجمالی خاکہ تھا۔چوں کہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانیؒ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، وہ اس دنیا کے باسی ہوچکے ہیں جہاں ان کے اعمال و کردار کا سلسلہ منقطع ہوچکاہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی زندگی کے روشن پہلو ئوں پر تفصیلی گفتگو کی جائے۔ان کے فکر و عمل اور کارناموں کو آنے والی نسلوں کے حوالے کیا جائے ۔
قبل اس کہ بات آگے بڑھائی جائے یہ ذہن نشیں رہے کہ کسی بھی شخصیت اور ادارے سے متعلق کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنے سے قبل اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ شخصیت اورادارے کی تعمیر راتوں رات نہیں ہوتی ہے ۔عظیم صحافی اور روزنامہ آزاد ہند کے سابق ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی نےایک موقع پر نصیحت کی تھی کہ یقیناً صحافی کا کام مدح سرائی کرنا نہیں ہوتا ہے،تاہم صحافی اور اہل قلم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی شخصیت یا پھر ادارے کی خدمات پر یک جنبش خط تنسیخ کھینچنے سے قبل سو مرتبہ سوچے،صرف شکوک کی بنیاد شخصیات اور ادارے کے کارنامے کا ملیامیٹ نہ کرے ۔ کہیں ایک بے جاتنقید سے اس ادارے یا پھر شخصیت کی سالہاسال کی محنت پرپانی نہ پھر جائے ۔بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی شخصیت کی تعمیر بھی کوئی راتوں رات نہیں ہوئی ہے، نہ وہ کسی رئیس گھرانے کے فرزند تھے اور نہ ہی ان کے آباو اجداد کا تعلق زمینداروں سے تھا اور نہ ہی انہیں سجادگی اور صاحبزادگی ورثے میں ملی تھی۔وہ پسماندہ ترین علاقے کے ایک متوسط گھرانے کے فرزندتھے۔جن کی راہوں میں قالین نہیں بلکہ کانٹے ہی کانٹے تھے ۔ ان کے والد علاقے کے’’ مولوی صاحب ‘‘ تھے ۔کسی مستندتعلیمی ادارے کے سندیافتہ نہیں ہونے کے باوجود اپنے دل میں دین متین کی تڑپ رکھتے اور مسلمانوں کی تعلیم اوراصلاح کی فکر رکھتے تھے۔ رب ھب لی من الصالحین اور ’ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتِنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما‘ جیسی دعائوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی جیسا سعادت مند بیٹے سے نوازا تھا ۔ چناں چہ جب بیٹے نے تعلیم مکمل کرکے جامعہ مظاہرعلوم وقف جیسے ادارے سے وابستہ ہوکر دین کی خدمت کے ساتھ ذریعہ معاش سے وابستے ہوگئے تو بیٹے اس کامیابی پر مطمئن ہونے کے بجائے فکر مند ہوگئے کیوں کہ ان کا مقصد بیٹے کو صرف علوم نبوت سے بیٹے سرفراز کرنا نہیں تھا ۔بلکہ ان کی تمنا اور دیرینہ خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اس خزاں یافتہ علاقے میں علوم نبوت کی کرنوں سے بھرپور علم و فن کا ایسا گلستاں آباد کرے کہ پورے دیار سے خزاں کا موسم ختم ہوجائے اور وادی غیر ذی زرع اسلام اور مسلمانوں کیلئےزر خیز ہوجائے بلکہ کفر و شرک سے پاک ، امن و امان کے دین مبین کا مرکز بن کر ابھرے ۔
ایک بیٹے کی نیک بختی اور خوش نصیبی اس سے بڑھ کراور کیا ہوسکتی ہےکہ وہ والد کے خوابوں کی تعبیرکےلئے اپنی پوری زندگی وقف کردے ۔خواب بھی وہ جو ذات اور خاندان کی ترقی کے بجائےامت کی فلاح وبہبود سے متعلق ۔وہ خواب بھی ایسا کہ جس کی تعبیر کیلئے اٹھائے گئے ایک ایک قدم نیکی و خیر اور صدقہ جاریہ اور ذریعہ نجات بن جائے۔ اپنے والد کے اس خواہش اور تڑپ سے متعلق خود مفتی محفوظ الرحمن عثمانیؒ اس طرح لکھتے ہیں :
ایک دن والد مرحوم ’مولانا ایوب رحمانی قدس سرہ نے مجھے طلب کیا اور قریب بیٹھا کر فرمایا:
بیٹا میں نے جس مقصد کےلئے آپ کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا، عالم دین اور مفتی بنایا، وہ مقصد فوت ہوتا ہوا نظرآرہا ہے ،والد محترم کے اس بات کو پر میں حیران ہوگیا، ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے کہا کہ ابو اس وقت پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارن پور، دارالعلوم ندوۃ علما لکھنو اور جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل ایک خاص مقام ہے،ان جامعات میں سے کسی ایک میں خدمت کا موقع ملنا بڑی سعادت کی بات ہے، یہاں سے وابستگان کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ پوری زندگی اس خدمت میں صرف ہوجائے ۔میری اس دلیل سے والد محتر م مطمئن نہیں ہوئے،انہوں نے فرمایا بیٹا اپنی ملازمت سے آپ اور اپ کے بچے خوش رہیں گےمگر میری دلی خواہش پوری نہیں ہوئی ۔
بیٹا !آپ جس علاقے میں پیدا ہوئے ہیں وہ غربت زدہ ہونے کی وجہ سے اسلام مخالف مشنتر یوں عیسائیت اور قادیانیت کی شرانگیزی کی آماج گاہ ہے،یہ دونوں فتنے اپنے پنجے پھیلاکر مسلمانوں کو مرتد بنارہے ہیں ،مسلمانوں کی بڑی آبادی فتنوں کی زد میں ہے۔کل جب میں اللہ کے حضور میں پیش اور محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہوتو شرمندگی نہ ہو،میں سراٹھاکر یہ کہہ سکوں اے خالق کائنات میرے پاس جو کچھ تھا اور جتنی استطاعت تھی وہ میں تیری راہ میں خرچ کردیا۔اس لئے بیٹا ملازمت سے استعفیٰ دے کر یہاں آجائیے ۔یہاں ایک مکتب قائم کیجئے اور چار بچوں سے اس کا آغاز کردیں، قرآن وحدیث کی تعلیم دیں ،تاکہ مجھے حق جل مجدہ اور آقاکے سامنے ندامت کا سامنا کرنا نہ پڑے ۔
(تاریخ جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ)
والد کے خلوص اور تڑپ کے سامنے وفا شعار بیٹے نے برضا و رغبت والدکے خوابوں کی تعبیر کا عزم مصمم کرکے ہمیشہ کےلئے بہار منتقل ہوگئے ۔مگر یہ راہ اس قدر آسان بھی نہیں تھی ۔مادی وسائل و اسباب بالکل نہیں تھے ۔چناں چہ پھر والد سامنے آئے اور خود اپنی زمین دی اور ٹاٹ کے مکان سے چند اساتذہ کے ساتھ مل کر1989میںمدرسہ کا آغام کردیا ۔اور اب یہی درس گاہ جامعۃ القاسم درالعلوم الاسلامیہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔شاید والد نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کا بیٹا ان کے اس خواب کی تعبیر اس طرح سے کرے گا آج شمالی بہار کے بڑے تعلیمی اداروں میں اس ادارے کا شمار ہوتا ہے۔کسی بھی ادارے کیلئے 30سال کا سفر کوئی بہت زیادہ طویل مدت نہیں ہے ۔نصف صدیاں بیت جانے کے باوجود بہت سارے ادارے اپنے وجود کی اہمیت تک نہیں منواپاتے ہیں ۔مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی جدو جہد اور جانفشانی اور ان کے خلوص کی جلوہ سامانی تھی کہ’جامعۃالقاسم دارالعلوم الاسلامیہ‘ نہ صرف تعلیم و تعلم کا مرکز ہے بلکہ ’’شجرقاسمیت ‘‘کی شاخ سے پھونٹ کر خود ایک تناور درخت بن کر تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔آج یہ ادارہ ملی ، سماجی ،فلاحی ،تعلیمی بیداری مہم ، تحریک ختم نبوت ، جدید عصری علوم کی ترویج کی کوششوں کا مرکز بن رہاہے ۔علاقے میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو جامعۃ القاسم فلاحی کاموں کا مرکز بن جاتا ہے اور جب کوئی ایمان و رسالت کی دیوار کو منہدم کرنے کی جسارت کرتا ہے تو یہ تحفظ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کا مرکز بن جاتا ہے اور جب انسانیت کو شرم سار، فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہاں سے پیام انسانیت کی آواز بلند ہونے لگتی ہے۔
جامعۃ القاسم دارالعلوم اسلامیہ کا قیام اور اس کے بعد حضرت مفتی ؒ کی اسلامک یونیورسٹی کے قیام کا خوا ب کی اہمیت کا اندازہ لگانے کےلئے ضرور ی ہے کہ شمالی بہار کے اس خطے کی جغرافیائی، سماجی ، معاشی اور تعلیمی صورت حال جائزہ لیا جائے ۔کیوں کہ شخصیت کی تعمیر اور ادارے کا وجود سماجی اورمعاشرتی کوائف اور جغرافیائی محل وقوع کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ان پس مناظرکو سمجھے بغیر کسی بھی شخصیت کے جدو جہد اور اس کے کارناموں کی اہمیت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔شمالی بہار کی دو کمشنریوں کوسی اور پورنیہ سات اضلاع پر مشتمل ہے۔یہ دونوں کمشنریاں شمال میں نیپال کی لمبی سرحد سے متصل ہے توشمال مشرق میں ہندوستان کی ان سات ریاستوں کے قریب ہے جس پر چین کی گندی نظر ہے۔جب کہ مشرق میں مغربی بنگال کے ساتھ بنگلہ دیش کی سرحد ہے،یوں سمجھا جائے کہ یہ علاقہ نیپال ،چین اور بنگلہ دیش میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔بین الاقوامی سرحد سے متصل ہونے کی وجہ سےہندوستان کی سیکورٹی کے لحاظ سے بھی یہ اضلا ع کافی اہم ہیں ۔مگر اس کے باوجود معاشی وسماجی اعتبار سے ہندوستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ان دونوں کمشنریوں کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاٹ کوسی ندی میں ہرسال آنے والا تباہ کن سیلاب ہے ۔ہندوستان کی آزادی کے 70سال بعد بھی حکومت ہند اس مسئلے کو حل نہیں کرسکی ہے۔ایک چھوٹا ملک نیپال ہندوستان کو پیشگی اطلاع بغیر جب چاہتا ہے پانی چھوڑدیتا اور علاقے کا علاقہ تباہ وبرباد کردیاتا ہے۔ کشمیر ، آسام اور بنگال کے بعد سے زیادہ مسلمان ان اضلاع میں آباد ہیں ۔کشن گنج میں 79فیصد، کٹیہار میں 44فیصد ، ارریہ میں 42فیصد ،پورنیہ میں 38فیصد،سوپول میں 29فیصد اور سہرسہ میں 25فیصد مسلم آبادی ہے ۔اتنی بڑی مسلم آبادی کی نصف آبادی جہالت اورمعاشی بدحالی کی شکار ہے ۔مسلمانوں میں ْخواندگی کی شرح 60فیصد سے بھی کم ہے ۔حکومتی عصری و تعلیمی ادارے آبادی کے لحاظ سے کافی کم ہیں ۔مسلم اکثریتی بلاک و قصبوں کی صورت حال تصور سے کہیں زیادہ خراب ہے ۔سچر کمیٹی ، بہار اقلیتی کمیشن اور دیگر کمیٹیوں کی رپورٹیں ان علاقوں کی پسماندگی کی پوری کہانیاں بیان کرتی ہیں ۔گرچہ ماقبل آزادی انگریزوں نے اور مابعد آزادی ہندوستانی حکمرانوں سے اس علاقے کو نظر انداز کیا ہے مگر علمائے ربانین نے اپنی جدو جہد اور سعی محمود کے ذریعہ تعلیمی اداروں کا ایسا جال قائم کیا ہے کہ فتنہ پرورتحریکیں دم توڑ گئی ہیں ۔ہر ایک شخصیت نے اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کیا ہے ۔ 30سال قبل ارریہ کے فاربس گنج بلاک سے محض 45کلومیٹر دور ضلع سپول کے مدہوبنی گائوں میں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ نے جو پودا لگایا تھا وہ اب گل وگلزار بن چکا ہے ۔یہ چراغ سورج اور چاندکی شکل اختیار کرچکا ہے اور اس کی روشنی سے صرف ایک علاقہ ہی نہیں بلکہ سیمانچل کا منور ہورہا ہے ۔چوں کہ اس ادارے کی نسبت بانی دارالعلوم دیوبند ،حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ کی طرف منسوب ہے ۔ اس لئے امام قاسم کے جو مشن ہیں وہی مشن جامعۃ القاسم اور ان کے بانی مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے تھے۔
اگر کسی ادارے کو بیدار مغز قائد کی قیادت و رہنمائی حاصل ہوجائے تواس ادارے کی ترقی لازمی ہوتی ہے ۔مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ایک روشن دماغ ، وسیع النظر اور اعلیٰ ظرف ذہنیت کے حامل تھےپجہد مسلسل، سعی پیہم اور یقین محکم کی قوت سے مالامال تھے ۔ان کی ان تمام خوبیوں کا پرتو جامعۃ القاسم ہے۔ان کے مقاصد عظیم تھے اور منصوبے بڑے تھے اور ان کے پاس وقت کافی کم تھا۔شاید انہیں اس کا احسا س بھی تھا اس لئے جامعۃ القاسم کی ترقی اور اپنے منصوبے و عزائم کو عملی شکل دینے کےلئے ہمہ تن مصروف عمل تھے۔ان کےلئے دن ایک الگ تاریخ ہوتی تھی اور رات ایک الگ تاریخ ۔وہ مستقل سفر میں رہتے تھے۔یہ بات سچ بھی ہے کہ سفر وسیلہ ظفرہے ۔اس لئے سفر ان کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے۔بلکہ انہوں نے گزشتہ 30سال کے بیشتر اوقات سفر میں گزارے ہیں ۔ مستقل چلتے ہی رہنا اور کہیں نہیں ٹھہرنے میں یقین رکھتے تھے۔
نہیں اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کےلئے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت ،حضر ہے مجاز


ان کے اس مستقل اسفار پر ایک بڑا حلقہ معترض بھی تھا۔بسا اوقات اس پر انہیں تنقیدیں بھی سہنی پڑتی تھی، مخالفت بھی ہوتی تھی۔مگر وہ ان سب سے بے پرواہ ہوکر اپنے عزائم و منصوبے کی تکمیل کےلئے سرگرداں رہے۔ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح جس علاقے میں یہ ادارہ قائم ہے وہاں کی آبادی معاشی طور پر بہت ہی کمزور ہے۔اس کےعلاقے کی بڑی آبادی ہندوستان کے بڑے شہروں میں مزدوری کرتی ہے۔اس علاقے کے لوگ تجارت اور چھوٹے چھوٹے کارخانےسے کم وابستہ ہیں ۔ہر سال آنے والے سیلاب کی وجہ سے فصل بھی تباہ ہوجاتے ہیں اور اس طرح عشر بھی ان مدرسوں کو بہت ہم کم ملتا ہےمسلمانوں کی بڑی آبادی ہے مگر زمینداری مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔چناں چہ انہیں جامعۃ القاسم اور اسلامک یونیورسٹی کے قیام کےلئے دنیا کی خاک چھاننی پڑرہی تھی۔ بے جا اعتراض کرنے والے ان کے مسلسل سفر کو سیاحت سے تعبیر کرتے تھے۔مگر مفتی ؒ نے یہ بات خود مجھ سے کہی تھی کہ دنیا کے بڑے تمام ترقی یافتہ ممالک کا سفر کیا ہوں مگر میں وہاں کے سیاحتی مقامات پر کبھی بھی نہیںگیاکیوں کہ میرا سفر کبھی اس مقصد کےلئے ہوا ہی نہیں ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے اسفار سے صرف جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ ہی فیض یاب ہوا ہےبلکہ انہوں نے کئی بڑے دینی اداروںکی مدد کی ہے ۔اس کی پرواہ کئے بغیر مخیر حضرات کی توجہ بڑے اداروں کی طرف ہوجائے گی انہوں نے ہندوستان کے کئی بڑے مدرسوں کے ذمہ داروں کی برطانیہ، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں رسائی میں معاونت کی ہے ۔حضرت مولانا محمد سالم قاسمی کے کئی ایسے خطوط ان کے نام ہیںجس میں حضرت دارالعلوم وقف کی معاونت اور بیرون ممالک کے اسفار کی راہ ہموار کرنے کی درخواست کی ہے۔اپنے استاذ کی درخواست پر ۔مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے اپنے مادر علمی کی مالی وسائل کی فراہمی کےلئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کے صاحبزادے حافظ محمد عاصم نے جب دیوبند میں طیب اسپتال قائم کیا تو حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کی فرمائش پر ہی مفتی محفوط الرحمن عثمانی نے حافظ عاصم کے ساتھ جنوبی افریقہ کا سفر کیااور ان کا تعارف کرایا۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف یقینا ایک بڑا ادارہ ہے۔اس کے پاس سوسال کی روشن تاریخ ہے۔اس سے کئی عظیم تاریخی شخصیات وابستہ رہی ہیں ۔حضرت مولانا منت اللہ رحمانی یا پھر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کی شہرت دنیا کے کئی ممالک میں تھی۔بالخصوص حضرت قاضی ؒ جنوبی افریقے میں کافی مشہور تھے مگر ان ممالک میں امارت شرعیہ کا چندہ نہیں ہوتا تھا ۔یہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی وسعت ظرفی کا کمال ہے کہ انہوں نے دبئی سے لے کر برطانیہ اور جنوبی افریقہ تک میں امارت شرعیہ کے ذمہ داروں کا تعارف کرایا ۔مفتی محفوظ الرحمن عثمانی انسان ہی تھے ۔ان کی یہ امیدیں کوئی بے جا بھی نہیں تھی کہ یہ حضرات جن کی انہوں نے معاونت کی ہے وہ ان کےلئے آسانیاں پیدا کریں گےاور ان کے لئے خیرکے دو لفظ بولیں گے۔مفتی محفوظ الرحمن عثمانیؒ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور جید عالم دین حضرت مولانا ثنا الہدی قاسمی نے اپنے مضمون میں مفتی عثمانی ؒ کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مفتی محفوظ الرحمن عثمانی امارت شرعیہ کے مخالف نہیں تھے بلکہ انہوں نے بیرون ممالک میں امارت شرعیہ کی مدد کی ہے ‘‘ ۔مگر سوال یہ ہے کہ آج انہیں یہ صفائی دینے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔کاش وہ اس حقیقت کا اعتراف ان کی زندگی میں کرلیتے ۔یقینا مفتی عثمانی امارت شرعیہ کے مخالف نہیں تھے مگر بڑے اداروں کے ذریعہ کسی بھی چھوٹے اداروں کو پنپنے نہیں دینے کے رویے اور ذہنیت کے مخالف تھے۔ ملک کی کئی ایسی اہم دینی شخصیتوں کو میں جانتا ہوں جنہوں نے بیرون ممالک کے سفر کےلئے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی مددلی اورمفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف یہ سوچ کر معاونت کی یہ بڑے دینی ادارے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں مگربعد ان ہی حضرات کے زبان پر مفتی عثمانی اور ان کے ادارے کےلئے دوخیر لفظ بولنے پر آبلے پڑگئے۔مفتی عثمانی کی فطرت میں کسی بھی دینی ادارے کی مخالفت کرنا نہیں تھا۔بلکہ معاونت کرنا ان کی فطرت تھی۔وہ لائن چھوٹی کرنے کے بجائے خود بڑی لائن کھینچنے میں یقین رکھتے تھے۔وہ کسی کے قدکو چھوٹا کرنے کے بجائے خود اپنے قدکو بڑا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔جو لوگ انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے یا پھر وہ حضرات جن کی انہوں نے معاونت کی ہے ، ان کی راہیں آسان کی ہیں وہ اگر ان کی مخالفت کرتے تو وہ آسانی اس کو فراموش نہیں کرتے تھے۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاف تو نہیں فراموش تو کرہی جاتے ۔دراصل اس معاملے میںعلامہ اقبال کے اس شعر کےمصداق تھے۔
اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری!
کورونا وبا کے بعد وہ مستقل جامعۃ القاسم میں مقیم تھے۔اس درمیان ایک یا دو مرتبہ ہفتہ دس دن کےلئے بحالت مجبوری دبئی کے ہفتہ دوہفتے کے سفر کے علاوہ مستقل طور پر جامعۃ القاسم کوہی مسکن بنالیا۔ان مہینوں میں ان سے میر ی کئی کئی گھنٹے طویل گفتگو ہوتی تھی۔میں ان سے یہ کہتا کہ مفتی صاحب کورونا وبانے آپ کےآرام کا سامان کردیا ہے۔چند مہینے خوب آرام کیجئے اور کئی دہائیوں کی تھکاوٹ کا ازالہ کرلیں اور جب دنیا کورونا سے نجات حاصل کرلے تو آپ تازہ دم ہوکر سرگرم عمل ہوجائیں ۔مگر وہ کہتے کہ مولانا ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر رات میں نیند نہیں آتی ۔جامعۃ القاسم کی ہی نہیں ہندوستانی مدارس کے مستقبل کو لے کر فکر مند ہوں، اب وقت آگیا ہے ہندوستان بھر کے مدارس کے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان کوتاہیوں کا ازالہ و ادارک کریں جس کی وجہ سے اللہ ہم سب سے ناراض ہے۔مدارس سے بلند ہونے والی قرآن و سنت کے نغمہ آفریں آوازیں بالکل خاموش ہوچکی ہیں ۔گزشتہ ایک سال میں وہ یہ بات دسیوں مرتبہ دہرائی ۔ایک دن میں نے ان سے کہا کہ مفتی صاحب کئی سال قبل میںنے تحریک اسلامی کی عظیم شخصیت اور مفکر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا مدارس سے متعلق ایک کتابچہ پڑھا تھا جس میں انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ’’ مدراس کو بیرون ممالک سے آنے والی امداد ایک دن بند ہوجائیں گے اس لئے قبل ازوقت مدارس کو خود کفیل بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔اس کےلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مفت میں نظام تعلیم کے بجائے والدین میں اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے کا مزاج پیدا کیا جائے‘‘۔مفتی صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ ’’مولانا ‘’ پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی عظمت و قابلیت اپنی جگہ مسلم ہےمگر ہم لوگ زمین پر کام کرتے ہیں اگرمدارس میں اسکولوں کی طرح فیس کا نظام نافذ کردیا جائے تو ہندوستان کے بیشتر مدارس یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند بھی طلبا سے خالی ہوجائیں گے۔اس کے بعد انہوں نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا میں امام محمد قاسم نانوتویؒ کے کردار پر طویل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طریقےسے ساقی کوثر نے خود دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ہے اسی طرح سے یہ نظام جو آج رائج ہے وہ الہامی ہے۔امام قاسم نانوتویؒ کی فکرکا ہی یہ کمال ہے کہ ہندوستان میں اسلام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے بیشتر حصوں میں ان ہی مدارس کے فیض یافتگان اسلام کی خدمت کررہے ہیں ۔
مفتی محفوظ الرحمن عثمانیؒ کا یہ موقف نہ صرف واضح ہے بلکہ زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ معاشی بدحالی اور مدارس سے معاش و مادی ترقی وابستہ نہیں ہونے کی وجہ سے دولت مندگھرانے کے بچے ان مدرسوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے ہیں ۔یہاں عموما اس خاندان کے بچے آتے ہیں جن کے پاس خود کی کفالت کےلئے روپے نہیں ہوتے ہیں ۔ایسے میں کوئی بھی والدین ایسے خرچ کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے جس سے کوئی مادی ترقی وابستہ نہ ہو۔مدارس اسلامیہ کا یہ کردار بہت ہی تاریخی ہے اس نے تعلیم کو کاروبار بنانے کے بجائے انسانی خدمات کا ذریعہ بنایا ہے۔جہاں تک بات نظام تعلیم اور نصاب کی ہے تو اس میں ہمیشہ بہتر کی گنجائش ہے۔اورہمیشہ رہے گی ۔مفتی عثمانیؒ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کی شخصیت پر منعقد سیمینار میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اہل مدارس کو اس طرح دعوت دی تھی۔
دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد جنہیں دنیا حضرت شیخ الہند ،اسیر مالٹا ، تحریک روشمی رومال کے بانی کے طور پر یادکرتی ہے نے امام ربانی قاسم نانوتوی کے نظریہ تعلیم کو توسیع کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس حالت میں گئے کہ ضعف ونقاہت کی وجہ سے سے آپ بیٹھ نہیں سکتے تھے۔پالکی میں لیٹ کر گئے اور آپ کی تحریری تقریر مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے پڑھ کر طلباء کو سنایا۔اس خطبے میں آپ نے فرمایاتھا کہ ’’میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر؛ اس لیے لبیک کہا کہ اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔‘‘ ’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑدیا ہے۔،آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا! ہاں بے شک یہ کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا کہ لوگ نصرانیت (مغربیت) کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب یا مذہب والوں کا مذاق اڑاتے یا حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگتے ہیں، ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے‘‘۔
حضرت شیخ الہند ؒ کے بے قرار دل سے نکلی صدا نے عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کے دلوں کو مسخر کرلیا ہے ،شیخ الہند کی تقریر کا ہی نتیجہ تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مولانا محمد علی جوہر جیسا ہیرانکلا۔جب آپ نے ترکِ موالات یعنی برطانوی حکومت سے ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی اپیل کی تو یونیورسٹی کے بہت سے طلباء نے یونیورسٹی سے رشتہ توڑ لیا۔ اس طرح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ جہاں ہم آج جمع ہیں مسلمانوں کی دوسری بڑی یونیورسٹی حضرت شیخ الہند کی بدولت وجود میں آئی۔حضرت شیخ الہندنے مالٹا سے واپسی پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کو دو بنیادی پالیسیاں عطا کیں (۱) ڈائیلاگ (۲) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرکے انھیں اپنا ترجمان بنانا۔‘‘شیخ الہندؒ دوررس نگاہیں جانتی تھیں اقوام عالم سے ڈائیلاگ کے ذریعہ ہی قرآن کے آفاقی پیغام اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین متین کو صحیح شکل میں پیش کرسکتے ہیں ۔اسی طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ عالمی حالات کو جتنا سمجھتا ہے قدیم طبقہ نہیں اور جدید طبقہ کے پاس وہ زبان واسلوب ہے جسے اقوام عالم سمجھتی ہیں، صرف اس کے پاس قرآن وسنت کی صحیح رہنمائی نہیں ہے، اگر یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں تو ملتِ اسلامیہ کی کشتی موجودہ حالات کے بھنور سے نکل سکتی ہے۔
پوری دنیا کا عینی مشاہدے کی وجہ سے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی فکر میں وسعت آگئی تھی مگر ساتھ ہی وہ امام قاسم نانوتوی کے بنیادی فکر سے ذرہ برابر سمجھوتہ کرنے کےلئے تیار نہیں تھے۔چناں چہ ان کا موقف تھا کہ مدراس کے نظام تعلیم اور طریقہ کارمیں فروعی قسم کی تبدیلی کی جاسکتی ہے مگر بنیادی فکر وہی ہونی چاہیے جو امام قاسم نانوتویؒ کا تھا۔
جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ ان کی سانس میں رس بس گیا تھا۔ان کی فکر کا محور جامعۃ القاسم تھا۔۔چناں چہ وہ پٹنہ کے اسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش سے لڑرہے تھے۔بے ہوشی کا عالم تھا مگر جب بھی ہوش آتا تو صرف جامعہ جامعہ ہی ہوتا۔کبھی بھی نیم بے ہوشی میں کہتے مجھے جامعہ لے چلیں ۔میں جامعۃ سے ہی بلندیوں کا سفر طے کیا ہوں اور جامعہ کی مٹی میں ہی مٹی رچ بس جانا چاہتا ہوں ۔قدرت کو یہی منظور تھا آج وہ جامعۃ القاسم کے احاطے اور جامع امام قاسم کے دائیں جانب آسودہ خواب ہیں ۔ان کی قبر سے یہ صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
ہے جنوں ،اہل جنوں کیلئے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جد ا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا،میرے بعد
جاری

متعلقہ خبریں

تازہ ترین