کلکتہ:
دنیا میں کوئی بھی ملک اسی وقت تک ترقی نہیں کرسکتی ہے جب اس کے پاس کوئی اپنی زبان نہ ہو۔بھارت کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی کوئی زبان نہیں ہے۔ترقی کیلئے انگریزی کو لازمی بنادیا گیا ہے۔یہ سچ ہے کہ انگریزی ایک عالمی زبان ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ فرانسیسی اور جرمنی قوم نے ثابت کردیا ہے کہ وہ انگریزی جانے کے بغیر ترقی یافتہ قوم ہیں۔ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنی مادری زبان سے محروم ہورہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ’ہندی، اردو اکاڈمی‘ کے زیر اہتمام ”معاصر بھارت میں ہندی اور اردو کو درپیش چیلنجز“ کے عنوان سے منعقد پینل ڈسکشن میں مقررین نے کیا۔اس تقریب کی صدارت قائد اردو شمیم احمد نے کی۔شمیم احمد کی پہل پر ہی ”ہندی اردو اکاڈمی“ قائم کیا گیا ہے۔
مشہور صحافی اور مونگیر یونیورسٹی میں پروفیسر زین شمسی نے سماجی و معاشرہ کی تعمیر میں زبان کے کردار اور اس کی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ باکردار سماج اور صالح معاشرہ کی تعمیر کیلئے زبان کا اہم کردار ہے۔ادب کے بغیر کوئی سماجی ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا ہے۔سائنس و تکنالوجی انسانی زندگی میں سہولت تو پیداکرسکتی ہے مگرانسانی جذبے، انسانی احساسات اور معاشرے کے اصلاح اور ذمہ داری کے احساسا ت پیدا کرنے کیلئے ادب کا ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹرزین شمسی نے اردو اور ہندی تنازعات سے گریزکرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں زبان کی جڑیں ایک ہی ہیں اور اس کے احساسات یکساں ہیں۔دونوں زبان ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کے بعد ہی توانا ہوئی ہے۔اس لئے ہندی اردو اکاڈمی کا قیام ایک بڑا کارنامہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی زبان کا ادب اسی وقت آگے بڑھ سکتی ہے جب نئی نسل زبان سے واقف ہو۔انہوں نے ہندی اردو اکاڈمی کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جن مقاصد کے تحت یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے اور جوسوچ جو پیش کی گئی ہے وہ نہ صرف بے نظیر بلکہ ایک ایسے وقت میں جب زبان کو نفرت کا ذریعہ بنایا جارہا ہے ایسے میں زبان کے ذریعہ محبت کو پھیلانے کیلئے ایک بڑی لکیر کھینچنے کی یہ کوشش ہے اور ہم ان کوششوں کے ساتھ ہیں۔
ہندی اردو اکاڈمی کے بانی سرپرست شمیم احمد نے کہا کہ آزادی کے بعد سے ہی ارداور ہندی کو ایک دوسرے کو لڑانے کی کوشش کی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت دونوں زبانیں زوال کا شکار ہیں۔ہندی کے نام پر سیاست تو خوب ہوئی مگر اس کے فروغ کیلئے کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی ہے۔اردو میڈیم اسکولوں کی طرح ہندی میڈیم اسکولوں کی حالت بھی انتہائی خراب ہے۔امیروں کے بچے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں مگر عام شہریوں کے بچوں کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں مگر ان اسکولوں کی حالات انتہائی خراب ہے۔اس لئے حالیہ برسوں میں دونوں زبا ن میں کوئی بڑا ادب کی تخلیق نہیں ہوئی ہے۔یہ بات سچ ہے کہ ہندی کے مقابلے ارد و کو زیادہ چیلنجز درپیش ہے مگر خطرات دونوں زبان کو لاحق ہے۔اور دوسری طرف ان دونوں زبان کے نام پر فرقہ واریت کو پھیلایاجارہا ہے۔اس لئے ہم نے ان دونوں زبان کو ایک ساتھ لاکر نہ صرف زبان کے فروغ کو اپنا مستقبل کا لائحہ عمل بنایا ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ بھی ہے کہ ایک طرف زبان کو فروغ دیا جائے گا اور دوسری طرف جب ان دونوں زبان کے بولنے والے ایک اسٹیج اورایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں گے تو ملک سے فرقہ واریت کا بھی خاتمہ ہوگا اور پھر کوئی ناعاقبت اندیشہ شخص یہ نہیں کہے گا اردو کٹھ ملاؤں کی زبان ہے۔اردو بھارت کی زبان ہے اور ہندی بھی بھارت میں پیدا ہوئی۔دونوں وراثت مشترکہ ہے اورہم اسی مشترکہ وراثت سے روسناش کرانے کی بات کررہے ہیں۔
ہندی اردو اکاڈی کے جنرل سیکریٹری اور نوجوان و سینئر صحافی محمد فاروق نے پینل ڈسکشن کی نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے اکاڈمی کے قیا م کے پس منظر، مستقبل کے لائحہ عمل اور مشرکہ جدو جہد کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ محمد فاروق نے کہا کہ بھارت دنیا کے ان ممالک میں ہے جو نہ صرف مذہبی و سماجی اعتبار سے متنوع ہے بلکہ زبان کے اعتبار سے بھی متنوع ہے۔یہاں ہرایک خطے کی اپنی زبان ہے اور ہماری آئینی ذمہ داری ہے کہ ہرایک بھارتی زبان کا احترام اوراس کو مساوی درجہ دیا جائے۔ کسی بھی ایک زبان کا غلبہ معاشرے کی تباہی اور ملک کے اتحاد کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ہم لسانی تنوع میں اتحاد میں یقین رکھتے ہیں۔
آزادی سے قبل ہندی اور اردو دونوں شانہ بشانہ چل کر آزادی حاصل کی تھی اور دونوں زبان کے مواد ایک دوسرے میں منتقل ہوتے تھے اور اس لئے بھارت میں اتحاد تھا مگر جب سے دونوں زبان کو ایک دوسرے کا حلیف سے حریف بنادیا گیا ہے تو بھارتی معاشرہ زوال اور انحطاط کا شکار ہے اور معاشرہ نفرت کا شکار بھی ہے۔اس کا اثر تخلیقی صلاحت پر بھی مرتب ہواہے۔اردو ہندی اکاڈمی دراصل ایک کوشش ہے کہ ماضی کے شاندار تجربات کو دوہرانے کی ہے اورہم بہت جلد اپنے خاکے اور منصوبے کے ساتھ عوام کے سامنے آئیں گے۔