Saturday, July 27, 2024
homeادب و ثقافتجنوبی ہندکی عظیم شخصیت کاکاسعید احمدعمری

جنوبی ہندکی عظیم شخصیت کاکاسعید احمدعمری

محمد خالد اعظمی( حال مقیم کویت)
khalid.azmi64@gmail.com
00965-65948929
( جنوبی ہند کی عظیم الشان دینی درس گاہ جامعہ دار السلام عمرآباد تمل ناڈوکے جنرل سکریٹری مولانا کاکاسعید احمدعمری صاحب ایک ماہ کی کی علالت کے بعد۸۸ سال کی عمر میں گیارہ مئی۲۰۲۴ء تقریبا سہ پہر پونے تین بجے عمرآباد میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ نماز جنازہ ۱۲ مئی بروز اتوار بوقت گیارہ بجے جامعہ دار السلام عمرآباد میں اد ا کی گئی ۔مرحوم بڑی خوبیوں کے ملک تھے جس کا اعتراف تمام اداروں کی اہم شخصیات نے کھل کرکیا۔ مرحوم کے پسماندگان میں چار صاحب زادے مولانا کاکا انیس احمد عمری ،کاکا امین احمد ،کاکا فہیم احمد ،کاکاندیم احمد ،تین صاحب زادیاں اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی کہتے ہیں کہ مرحوم علم دوست ، علماء کے قدرداں ، قومی وملی غیرت سے سرشار ، مہمان نواز ، اچھے انسان اور عظیم دینی ، علمی اور سلفی خانوادے کے چشم وچراغ تھے ، قومی وملی اورسماجی کاز سے کافی دلچسپی رکھتے تھے اور دینی وملی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
اسی طرح آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مولانا مرحوم کے خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ایک مثالی شخصیت تھے ، وہ علم وعمل کا حسین امتزاج تھے ،انھوں نے تعلیم کے میدان میں بڑی محنت کی ، ان کے زیر اہتمام جامعہ دار السلام کوبڑی ترقی حاصل ہوئی ، اس جامعہ کا بنیادی مقصددینی اورعصری تعلیم کا امتزاج اور مسلک ومشرب کی سطح سے اوپراٹھ کر دین اور علم دین کی خدمت کرناہے ، انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اسی راہ پر قائم رکھا اور اس سلسلے میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر رکھنے والے حضرات کی کوئی پرواہ نہیں کی ۔اس کے علاوہ مرحوم برادران وطن میں دعوت اسلام کا کام تھا۔ مرحوم اتحاد ملت کے بہت طاقت ور داعی تھے،وہ اپنی نجی مجلس اور عوامی محفل دونوں میں اتحاد ملت کے نقیب تھے ۔
مرحوم کویت بھی جامعہ دار السلام کے کام سے تشریف لایا کرتے تھے ،اس دوران کویت میں مقیم جناب محمد ہوشدار خان جنھوں نے ملی کونسل بٹلہ ہاؤس کا دفتر خریدنے کے لیے پوری رقم دی تھی ۔انھیں کی آفس میں اتوار کی ہفتہ واری مجلس میں شریک ہواکرتے تھے اور اپنے پندو نصائح سے سامعین کو فیض یاب کرتے ۔ قابل ذکر یہ ہے مذکورہ مجلس میں جن اہم شخصیات نے شرکت کی ہے اس میں سے مولانا مختار ندوی رحمہ اللہ سابق مرکز جمعیت اہل حدیث ہند،ڈاکٹرعبد الحق انصاری مرحوم سابق امیر جماعت اسلامی ہند،قاضی مجاہد الاسلام مرحوم سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ،مولانا رابع ندوی مرحوم صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ،مولانا ولی رحمانی مرحوم جنرل سکریٹر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔اس کے علاوہ مولانا اصغر علی امام مہدی امیر جمعیت اہل حدیث ہند ، ڈاکٹرمنظور عالم اور دیگرملک بیرون ملک کی شخصیات شریک ہوا کرتی تھیں۔
مرحوم اپنے فارغین کو کہاکرتے تھے کہ جامعہ عمارتوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اس کے تلامہ کانام ہے جو جامعہ کے نور سے مستفید ہو کر عالم ضیاء پاشی کررہے ہیں ،مرحوم اپنے تلامذہ کو پانج باتوں کی تلقین کیا کرتے تھے۔ پہلی اصلاح نفس ۔ دوسری اصلاح امت ۔ تیسری دعوت دین ۔ چوتھی خدمت خلق اور پانچویں تنظیم ۔
علماء کرام اور قائدین ملت سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ اس دور میں جب لوگ فکری انحطاط کے شکار ہیں تو مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگراداروں کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ کاکاسعید عمری مرحوم کو اچھا خراج عقیدت اسی وقت پیش کرسکتے ہیں جب وہ فکری اعتدال،مسلکی تشدد کے خلاف اعتدال وتوازن اورمحبت ومودت کا معاملہ اختیار کریں۔
کویت جیسے چھوٹے سے ملک میں جب بھی کسی مشہور شخصیات کاآنا ہوتاہے تو ان شخصیات سے کسی نہ کسی موڑپر ملاقات ہو جاتی ہیں، حسن اتفاق سے جنوبی ہند کی عظیم درس گاہ جامعہ دار السلام عمرآباد کے سکریٹری جناب کاکا سعید احمد عمری سے ایک پروگرام میں ملاقات ہوگئی تھی ۔ مرحوم سے ملاقات کب ہوئی تاریخ اور سن یاد نہیں لیکن اس وقت میں نے موقع کو غنیمت جانااورکویت سے نکلنے والا ماہانہ میگزین مصباح کے لیے یہ انٹرویو لیاتھا۔
اس انٹرویو کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ حذف واضافہ کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جارہا ہے ۔
مولانا کاکامحمد سعید عمری مرحوم سے ملاقات کویت میں ہواکرتی تھی ، مرحوم کی شخصیت بڑی ہی پیاری تھی، خاکساری ان کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔ جب بھی کوئی بات کہی جاتی تھی توہمیشہ ان کایہی کہتے تھے کہ میں تو ایک ادنی سا شخص ہوں ،اور جوکچھ ادارے کے لیے بن پڑتاہے وہ میں کردیتاہوں ، اورہمیشہ اللہ تعالی سے اجرکی امید رکھتاہوں۔اس طرح کے الفاظ بہت کم ہی لوگوں سے سننے کو ملتے ہیں۔مرحوم سے میری گفتگوکافی طویل تھیں بہت ساری باتیں حذف کردی گئی ہیں۔
سوال ۔محترم آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی۔
جواب ۔میری پیدائش ۱۹۳۶ء عمرآبا د میں ہوئی، جو میرا آبائی وطن ہے ۔
سوال ۔ کیا آپ اپنے خاندان کے متعلق بتائیں گے ۔
جواب ۔میں جس خاندان سے تعلق رکھتاہوں وہ ( کاکا ) ہے اور کاکاخاندان کا آبائی پیشہ تجارت ہے ، اورچمڑے کی تجارت میں ہمارے خاندان نے کافی نام کمایاہے، اس کے لیے میں اللہ کا شکر اداکرتاہوں کہ اس رب ذوا لجلال نے ہمیں حلال تجارت کے لیے منتخب کیاہے ۔ ہمارا خاندان زمانہ دراز سے چمڑے کی تجارت سے منسلک ہیں ، جنوبی ہند کے مشہور شہر مدراس میںہمارے کارخانے ہیں اور ہم اپنے کارخانے کی بنی ہوئی اشیاء بیرون ملک یعنی یورپ ، امریکا،اور دیگرممالک میں اکسپورٹ کرتے ہیں۔
سوال ۔ آپ کا خاندان تجارت پیشہ ہونے کے باوجود دین کی طرف میلان رہا اس کی وجہ کیا ہے؟۔
جوا ب ۔ دراصل میرا خاندان غزنوی خاندان سے متاثر ہواہے ، جس کی وجہ پوراخاندان دینی مزاج کا حامل ہے۔حسن اتفاق سے ہمارا پورا خاندان دینی مزاج ، دینی خیالات اور دینی فکر کا حامل ۔
سوال ۔ جامعہ قائم کرنے کا خیال کب اورکیسے آیا؟
جواب ۔بانی جامعہ دار السلام کاکا محمد عمرمرحوم اپنی تجارت کی غرض سے بھوپال ، دہلی اور امرتسر جایا کرتے تھے،دوران سفر انکی ملاقات غزنوی خاندان سے ہوگئی جن میں شیخ عبدالجبار غزنوی مرحوم کے علاوہ محدث کبیر نذیر حسین ،اور شیخ محمد بشیر وغیرہم ۔ اللہ تعالی ان لوگوں قبروں کو نور سے بھر دے آمین۔ سے کا فی متا ثر تھے ۔ان کے خاندان کے لوگوں کے مواعظ سے کافی استفادہ حاصل کیا ، اسی سے متاثر ہوکر ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ایک معتدل قسم کاادارہ قائم کیاجائے اس سوچ نے ان کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی ، لہذا مدرسہ کے ساتھ ساتھ ایک نئے ماحول کی تشکیل کے لیے ایک گاؤں اپنے نام سے بسایا ، اورآنے والوں کو اپنی زمینیں عنایت فرمائیں۔
اگرآپ ماضی کے جھروکوں میں دیکھیں توکہنے کو تو یہ بہت پرانی بات ہے لیکن اس پھل دار درخت کاپھل ایسا ہے کہ جیسے کہ یہ کل ہی کہ بات ہے ، ۳۴۳اھ بمطابق ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے کہ صوبہ ٹامل ناڈو کے ضلع نارتھ ارکاٹ میں کئی ایکڑ زمین خریدی ، اسے آباد کیا اور اپنے نام سے اس کا نام عمرآباد رکھا اور وہیں ایک علمی اوردینی درس گاہ کی بنیادرکھی جس کا نام جامعۃدار السلام لارشاد الناس رکھا-
سوال ۔ بانی جامعہ دار السلام کس مسلک سے تعلق رکھتے تھے؟
جواب ۔ بانی جامعہ مسلکاً اہلحدیث تھے ، لیکن معتدل مزاج تھے ۔
سوال ۔ مؤسس وبانی جامعہ دار السلام کاکامحمد عمر صاحب کتنے دنوں تک ادارہ کی نظامت کرتے رہے؟
جواب ۔مرحوم کاکامحمد عمر نے صرف تین چار سالوں تک ہی اس کی نظامت کرسکے ، اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
سوا ل۔ آپ اپنی تعلیم کے متعلق بتائیں گے۔
جواب ۔ میری ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلی تعلیم تک جامعہ دارالسلام عمرآباد میں ہوئی ۔ اور ۱۹۵۶ء میں فراغت ہوئی ۔
سوال ۔ کتنے سالوں سے جامعہ سکریٹری ہیں ؟
جواب ۔ میں تقریباً بیس سالوں سے جامعہ دار السلام کا سکریڑی ہوں اور اس کی خدمات انجام دے رہا ہوں۔
سوال ۔ کیا جامعہ کے لئے وقف وغیرہ کا بھی انتظام ہے ؟۔
جواب ۔ جامعہ کے لئے وقف کا بہت ہی اچھا نظم ہے ۔ اس کی شروعات ہمارے دادا ہی کے زمانے سے شروع ہوئی تھی اور اب تک اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔کاکامحمد عمر صاحب نے جامعہ قائم کرنے بعد باغ، عمارتیں اور دیگر چیزیں وقف کردیں تھیں ۔ اب مزید اس میںاضافہ ہورہاہے ۔
سوال ۔ کیا جامعہ کی نظامت کا نظم آپ ہی کے خاندان میں ہے ؟
جواب ۔ جی ، ہاں ہمارا ہی خاندان اس ادارہ کی نظامت اب تک سنبھالے ہوئے ہے اگرمستقبل میں کوئی ہم سے بہتر ملے گا توہم اس کے حوالے کردیں گے۔
میرے خیال میں ہماراخاندان بہت ہی اچھے طریقے سے جامعہ کی نظامت کررہاہے ، اورجامعہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہا ہے ۔اللہ تعالی نے اس ادارہ کی قسمت میں کامیابی وکامرانی لکھ دی ہے، اس طرح یہ ادارہ اول دن ہی سے ترقی کی منزلیں طے کررہااور آج اس کا حال یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان بالخصوص اور پورے ہندوستان میں بالعموم وہ اپنا ایک مقام بنا چکا ہے ۔
سوال ۔ جامعہ دار السلام عمرآباد کا اختصار میں تعارف کرائیں ؟
جواب ۔: جامعۃ کے قیام کے دوران ہی مؤسس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ وقت کہ اہم ضرورت اتحاد واتفاق ہے لہذا وقت کے عظیم علماء کرام اور دانشوران سے جامعہ کے نصاب سے متعلق مشورہ کیااورایک ایسا جامع نصاب تعلیم تیار کیا ، جس میں مسلکی ،فقہی ، اوراعتقاد مذہبی وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں تھا، اس کافائدہ یہ ہوا کہ ایک ہی چھت کے نیچے مختلف مسالک ، مختلف فقہ اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے علاوہ طلباء بھی تھے۔
سوال ۔ جامعہ کے طلباء میں اعتدال پیدا ہونے کی وجہ کیاہے ؟
جواب ۔ہمارے یہاں طلباء کے درمیان جواعتدال ہے وہ دارصل جامعہ کے نصاب تعلیم ، اساتذہ کرام کے کردار کا بہت بڑا کردار ہے۔اورساتھ ہی جامعہ کے سالانہ اجلاس میں ہر مسلک ومشرب کے علماء وقائدین شریک ہوتے ہیں ۔
سول ۔ قوم کو متحدکرنے میں جامعہ کا کیا کردار رہا ہے ؟
جواب ۔ قوم کو متحد کرنے جامعۃ کا کردار یہ ہے کہ آپسی اختلاف ہی صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم کسی کو برداشت نہیں کرتے لیکن ہمارے یہاں لوگ ایک دوسروں کی باتوں کو سنتے ہیں ، مسائل کو حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعتدال پیدا ہواہے ۔
سوال ۔ جامعہ میں بہتری کب سے زیادہ آئی ہے؟
جواب ۔۱۹۷۷ء میں جامعہ کا گولڈن جبلی منایا گیا ، جس میں ملک وبیرون ملک کی مشہور شخصیات نے شرکت کی ، جس میں ایک عظیم منصوبہ تیار کیاگیا۔جس کے بعد جامعہ کی مقبولیت میں چار چاند لگ گئے ، ساتھ ہی جامعہ کے مختلف شعبہ جات کھلے۔
سوال ۔ کیا جامعہ دارالسلام کومخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے۔؟
جواب ۔ ہاں ۔ جامعہ کو بہت ساری مخالفتوں کا سامنا کرناپڑاہے ، اور پڑ رہا ہے جن میں سے چند باتیں بطور مثال پیش کررہاہوں، مثلاً :
۔ بہت سارے سادہ لوح افراد یاادارے یا جماعتیں ہمارے ادارے کو اہلحدیث کا ادارہ کہتے ہیں لہذا ان کا کہنا ہے کہ اس ادارے کو ختم ہوناچائیے ۔
۔دوسرے وہ لوگ ہمارے ادارے کو جماعت اسلامی کا ادارہ سمجھتے ہیں لہذا اس وجہ سے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۔ تیسرے وہ لوگ جوجامعہ کے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ ادارہ کسی مسلک ومذہب کانہیں ہے لہذا اس کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
سوال۔ مختلف مسلک ومشرب کے لوگوں کی مخالفتوں کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں ؟
جواب ۔ہمارے تمام ذمہ داران و اساتذہ جامعہ تمام لوگوں کی مخالفتوں کوبحسن وخوبی سنتے ہیں اس کے بعد ہماری کوشش ہوتی ہے کہ معاملہ کا حل اچھی طرح نکل جائے بصورت دیگر ہمارے فارغین ہی ان لوگوں کی مخالفتوںکا احسن طریقے سے لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوال ۔ غیر مسلموں اورنومسلموں میں دعوتی کام کرنے کا جذبہ کب سے پیدا ہواہے اورکیسے؟
جواب ۔ اس کی بھی تاریخ ہے ، اگر آپ ماضی کا مطالعہ کریں تو مدراس کے علاقہ میں قبول اسلام کاسلسلہ ۱۹۳۵ء سے شروع ہواہے جس کی بنیادی وجہ اسلام کی حقانیت تھی نہ کہ لوگوں کی کوششیں۔اس وقت جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان کی تربیت کے لیے مختلف لوگوں نے اپنے اپنے طریقہ سے مقامی سطح پر کام کرنا شروع کردیا۔
ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد قبول اسلام میں اضافہ ہونے لگاایک اندازہ کے مطابق ۱۹۹۰ء تک پچاس ہزار افراد اسلام میں داخل ہوئے ہونگے۔یہ کام خاموشی سے ہورہا تھا لیکن بعض افراد نے اس کی تشہیر کردی جس کا غلط اثر پڑا۔جنوبی ہندمیں جن لوگوں کو اسلام قبول کرنا ہوتا تو لوگ مقامی جامع مسجد میں جاتے اور امام کے سامنے مشرف بہ اسلام ہوتے ۔یہ سلسلہ چلتارہا لیکن تشہیر ہونے کے بعد کافی رکاوٹیں پیدا شروع ہوگئیں۔
سوال۔ کیا آزادی سے قبل غیرمسلموں میں کام کرنے کاچلن تھا؟
جواب ۔ ہاں ۔آزادی سے پہلے کیرالامیں چند ادارے ایسے تھے جو غیر مسلموں میں ہی دعوت دین کا کام کرتے تھے۔
سوال ۔ کیا جامعہ دار السلام عمرآبادمیں بھی نومسلموں میں کام کرنے کے لئے کوئی پروگرام ہے؟
جواب ۔ جی ہاں ۔ہمارے جامعہ میں نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے ، شروع میں یہ کورس دوسال کا تھا لیکن حالات اور لوگوں کی مشغولیت کے مدنظراس کی مدت کم کردی گئی ہے۔ حقیقت میں یہ تعلیمی تربیتی کورس ہے۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دوران کورس طلباء قرب وجوار کے علاقوں کی مساجد میں خطبہ بھی دیتے ہیں اور کورس ختم کرنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں بحیثیت داعی کام کرتے ہیں۔
سوال ۔ کیا جامعہ میں غیر مسلموں کے لئے بھی کوئی کورس ہے ؟
جواب ۔ہاں ہمارے جامعہ میں غیر مسلموں میں کام کرنے کے لئے بھی کورس ہے تاکہ ملک کی بڑی آبادی کو بھی اسلام سے متعارف کرایا جاسکے ۔ اس کے لئے ہمارے ادارہ میںغیر مسلموں میں دعوت کا کام کیسے کیاجائے ۔ یہ کورس دو سالوں پر مشتمل ہے۔لیکن حالات کے لحاظ سے اس کورس کی مدت چھ ماہ کردی گئی ہے۔اور دوران تعلیم طلباء تعلیم کے ساتھ عملی میدان میں بھی حصہ لیتے ہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ کورس میں شامل ہونے والے افراد آدھا وقت کلاس میں اورآدھا وقت میدان میں دیتے ہیں۔
سوال ۔ کیا آپ جامعہ کے علاوہ دیگرعربی مدارس میں بھی دعوتی کام کی اہمیت کو بتارہے ہیں؟
جواب ۔ ہاں ہمارے ادارے کے لوگ پوری طرح کوشش کررہے ہیں کہ دعوتی جذبہ عام ہو ، اللہ کا شکرہے کہ اس وقت بہت سارے عربی مدارس میں دعوتی کام کرنے کا جذبہ بیدار ہورہاہے ۔
سوال ۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے مدارس سے دعوتی کام کرنے کا جذبہ مفقود ہے ؟
جواب ۔حقیقت تو یہ ہے کہ دعوت کی اہمیت سے بے خبر ہیں ۔اور دعوت کاموضوع ہمارے مدارس کے طرز تعلیم میںبحیثیت ایک سبجکٹ کے شامل رہنی چاہئے کہ برادران وطن میں دعوت دین کا جذبہ پیدا کریں۔اور اپنوںمیں اصلاح امت کاجذبہ پیدا ہو۔
۱۹۳۷ء میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے ایک کتابچہ لکھا تھا جس کا نام شاید اسلام کا سرچشمہ قوت تھا اس انہوں نے لکھا کہ اسلام میں الگ پیشہ ور مبلغ کا تصور نہیں بلکہ ہرشخص مبلغ ہے جیسا کہ جنوبی ہندوستان کے مسلمان کررہے ہیں۔یہاں تک کہ بعض غیرمسلم حضرات صرف قرآن کی تلاوت سن کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
سوال ۔ کیا آپ جامعہ کے فارغین کے لیے دعوتی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کچھ پروگرام بنایاہے ؟
جواب ۔ ہاں آپ کی بات درست ہے کہ جامعہ کے فارغین کے لیے ایسا ہونا چاہئے اس کے لیے جامعہ کے فارغین میں تذکیری پروگرام ہواکرے جیسا کہ ابھی بنگلور میں ہوا(علماء کرام وارثین انبیاء ہیں۔دعوت وتبلیغ ، انبیاء کا مشن اور علماء کرام کی عظیم ذمہ داری ہے ۔ اصلاح وتزکیہ اورتعمیر سیرت دعوت کا پہلازینہ ہے۔اوریہ وہ کام ہے جس کی ضرورت کبار صحابہ کرامؓتک محسوس کرتے تھے ۔ اصلاح نفس ، فکرآخرت اور خود احتسابی کا جذبہ جب تک ہمارے اندر پیدانہ ہوگا اس وقت تک ہم اپنے فرض منصبی کے امین اور نگہبان نہیں ہوسکتے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم زندگی کے ہنگاموں سے دور ہوکر اپنے گناہوں پر نادم ہوں ، خود کو نار جہنم سے بچائیںاورجنت میں داخل ہونے کی تمام تدابیر پر غورخوض کریں، رضائے الہی اور آخرت کی نعمت عظمی کے حصول کی ہرممکن طریقہ پر سیر حاصل گفتگوکریںاورزندگی کوبامقصد بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
سوال ۔ کاکاصاحب بیرون ملک بالخصوص خلیج میں رہنے والوں کے لئے پیغام کا مطالبہ کیا ہے ؟۔
جوا ب۔ میں بالخصوص اپنے ادارے کے فارغین اور بالعموم تمام لوگوں سے یہی بات کہوں گا کہ وہ مالی فراغت کی وجہ سے شکرانہ کے طور پر اللہ کی اطاعت وفرمابرداری دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ کریں۔
سوال ۔ کیا آپ کے ادارے میں ملک و بیرون ملک کے فارغین کے اساتذہ کی تدریسی ذمہ داریاں یکساں ہے یا فرق ہے ؟
جواب ۔ ہمارے ادارے میں ملک وبیرون ملک کے فارغین کی تدریسی ذمہ داریاں یکساں ہے ، اس میں کوئی تفریق نہیں ہے ، ورنہ عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے بہت سارے مدارس میں جواساتذہ بیرون ملک کے فارغ ہوتے ہیں ان کی تدریسی ذمہ داریاں برائے نام ہوتی ہیں ، جس کا غلط اثر دیگر اساتذہ پر پڑتاہے ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین