Friday, December 13, 2024
homeویڈیوزمیڈیائی سرگرمیوں اور نمائشی پروگراموں سے کہیں زیادہ ہمیں سماج کو بدلنے...

میڈیائی سرگرمیوں اور نمائشی پروگراموں سے کہیں زیادہ ہمیں سماج کو بدلنے کےلئے صبر کے ساتھ کام کرنا ہوگا—— امیر جماعت اسلامی سیدسعادت اللہ حسینی سے انصاف نیوز آن لائن کی خصوصی گفتگو

امیر جماعت اسلامی ہندسید سعادت اللہ حسینی گزشتہ ہفتے کلکتہ کا دو روزہ دورہ کیا۔جماعتی سرگرمیوں کے علاوہ انہوں نے ’’خون صد ہزار انجم سے ہوتا ہے سحرپیدا‘‘ کے عنوان سے منعقد ایک پروگرام میں کلیدی خطاب کیا ۔اس موقع پر انہوں نےمسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحادکی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صرف وقتی طور پر مشکل حالات میں اتحاد کی اپیل نہ کریں بلکہ مستقل ایجنڈے پر اتحاد ہونا چاہیے۔20کروڑ مسلمانوں کا اس بات پر اتحاد ہو کہ سو کروڑ لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔
کلکتہ دورے پر انصاف نیوز آن لائن نے امیر جماعت اسلامی سید سعادت اللہ حسینی سے ملک کے موجوہ حالات اور ہندوستانی مسلمان کے عنوان سے خصوصی گفتگو کی ۔


اس انٹرویو کو ویڈیو میں ملاحظہ کریں

انصاف نیوز آن لائن
ہریدارو میں ہندو انتہا پسندوں کے نفرت انگیز بیانات کسی سازش کا حصہ ہے یا پھراسے انتخابات میں ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کا حصہ قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے؟۔
سید سعادت اللہ حسینی
ظاہری طور پر یہ اترپردیش اور ملک کے دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش معلوم ہوتی ہے ۔ان حالات میں مسلمانوں کو احتجاجات اور نفرت انگیز بیانات دینے والوںکے خلاف محاذ آرائی کے بجائے حکومت سے کمیونیکشن کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہےوہ اس طرح کے نفرت انگیز مہم پر روک لگائے اور شہریوں کے درمیان سیکورٹی اور تحفظ کااحساس پیدا کرے۔

انصاف نیوز آن لائن
آخر اتنے بڑے سنگین مسئلے پر مسلم تنظیمیں مشترکہ موقف اختیار کرنے میں ناکام کیوں رہی ہے؟کیا ان حالات میں مسلم تنظیموں کے وفد کو ملک کے اعلیٰ عہدیداران صدر جمہوریہ، وزیرا عظم اور مرکزی وزیر داخلہ سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے؟۔
سید سعادت اللہ حسینی
مختلف مسائل پر مسلم تنظیموں نےکئی مواقع پر مشترکہ موقف اختیار کیا ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت کے پلیٹ فارم سے ہم نے مشترکہ موقف پیش کیا ہے؟حال ہی مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس میں ہم نے اس مسئلے مشترکہ موقف پیش کیا ہے اور حکومت کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔جہاں تک وفد کے ملاقات کا سوال ہے تو اس مسئلے پر مختلف تجاویز ہوسکتی ہیں۔اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اقتدار اعلیٰ سے ملاقات کی جاسکتی ہے۔مگر جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ اس مسئلے پر براہ راست سول سوسائٹی کو مخاطب کیا جائے ۔کیوںکہ نفرتی قوتیں ملک کے عوام کو گمراہ کرکے ان میں رائے عامہ ہموار کررہی ہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میںتبدیل لانے کی کوشش کی جائے اور اس کےلئے مختلف طبقات سے رابطہ قائم کرنا ہوگا ۔باقی صدر جمہوریہ ، وزیرا عظم اور مرکزی وزیر داخلہ سے ملاقات تو میڈیا سرگرمی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

انصاف نیوز آن لائن
نفرت انگیز بیانات کے رد عمل میں سول سوسائٹی کا رد عمل ضرور آیا ہےمگر ماضی میں جس طریقے سے سول سوسائٹی کا رد عمل آتا تھا وہ اس طریقے سے نہیں آیا ہے، اسی طرح اس مسئلے پر سیکولر جماعتوں کا رویہ بہت ہی افسوس ناک رہا ہے۔بنگال کی حکمراں جماعت ترنمو ل کانگریس، سماجوادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی، راشٹریہ جنتادل این سی پی اور دیگر جماعتوں نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔
سید سعادت اللہ حسینی
جمہوریت میں سیاسی جماعتیں عوامی رائے عامہ سے متاثر ہوتی ہیں ،اس لئے میں کہتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں سے کوئی امید باندھے بغیر ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے عوام کی سوچ اور نظریہ کو بدلنے کےلئے کام کیا جائے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاسی سطح پر مقابلہ کرنے، انتخابات میں ہرانے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔جب کہ اس سے کوئی حاصل نہیں ہوتا ہے ۔اگرسماج زہر آلود ہوتا ہے تو ہر ایک شخص متاثر ہوگا۔سماج سے ہی لیڈر ان پیدا ہوتے ہیں۔میڈیا میں بھی اسی سماج سے لوگ جاتے ہیں ۔زہر آلود سماج سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا ہے۔کیوں کہ سماج میں نفرت اور مسلم دشمنی پھیل چکی ہے اس لئے اس سماج کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔اس کےلئے ہمیں صبر کے ساتھ اور لائحہ عمل کے تحت زہر کے تریاق کےلئے تدابیر کرنے ہوں گے ۔
انصاف نیوز آن لائن
ماضی میںہم نے دیکھا ہے کہ مسلم تنظیمیں اپنے پروگراموں میں غیر مسلم دانشوروں ، لیڈر وںاور مذہبی رہنمائوں کو مدعو کرتی رہی ہیں ۔مگر اس کاکوئی فائدہ نظرہوتاہوا نظر نہیں آیا ہے۔کیوںکہ نفرت پھیلانے والے سماج کے نچلے طبقے کو زیاد متاثر کررہےہیں ؟
سید سعادت اللہ حسینی
یہی بات میں بول رہا ہوں، سماج میں کام کرنے کی ضرورت ہے، میڈیائی سرگرمیاں اور نمائشی پروگرامات سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ مشکلات زیادہ کھڑی ہوتی ہیں ۔اسی وجہ سے جماعت اسلامی مختلف طبقات کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس کےلئے جماعت اسلامی نے مختلف گروپ تشکیل کئے ہیں جس میں دانشوروں کو قریب کرنے اور ان سے رابطہ کرنے کےلے ایف ڈی سی بنائی ہے۔مذہبی رہنمائوں کے درمیان قائم کرنے کےلئے ’’دھارمک مورچہ‘‘ بنایاگیا ہے۔کالونی اور گائوں میں کام کرنے کےلئے ’’سدبھائونامنچ ‘‘ بناکی تشکیل کی گئی ہے۔اس منچ کے ذریعہ گائوں اور کالونی کے باشندوں کے ساتھ مل کر سماجی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس وقت ملک بھر میں 2ہزار سدبھائونا منچ کام کررہے ہیں ۔ہمیں نوجوانوں اور خواتین میں کام کرنے کی ضرورت ہے اوراس کےلئے ہم جلد الگ گروپ تشکیل دیں گے۔
انصاف نیوز آن لائن
کیا جماعت اسلامی اپنے طور پر اتنے بڑے کام کو انجام دے سکتی ہے؟کیا اس کےلئے اشتراک عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
سید سعادت اللہ حسینی
ہندوستان جیسے ملک میں اتنے بڑے مشن کو جماعت اسلامی اکیلے انجام نہیں دے سکتی ہے، پوری امت کواس مشن کا حصہ بننا چاہیے ، ہرایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر آس پاس مقیم غیر مسلموں کی غلط فہمیوںکےازالے کےلئے کوشش کرے۔اس کےلئے امت کے نوجوانوں کی تربیت اورمعاشرتی اصلاح کی بھی ضررت ہے۔
انصاف نیوز آن لائن
جماعت اسلامی کی امارت سنبھالنے والی شخصیات میں آپ سب سےکم عمر ہے۔جب آپ جماعت کی ذمہ دار ی سنبھال رہے تھے۔اس وقت مثبت اور منفی دونوں باتیں ہوئیں ۔جماعت سے وابستگان کی امیدیں تھی کہ آ پ نوجوان ہیں ، آپ کے سوچنے اور ہندوستان کو دیکھنے کا نظریہ مختلف ہے۔آپ ایک نئے انداز میں جماعت کی قیادت کریں گے۔کیا آپ ان توقعات پر اترنے میں کامیاب رہے ہیں ؟۔
سید سعاد ت اللہ حسینی
اس سوال کا جواب میں نہیں دے سکتا ہوں، جماعت میں فیصلے اجتماعی ہوتے ہیں ، اچھی کارکردگی کےلئے پوری جماعت کو کریڈٹ جاتا ہے۔قیادت اور لیڈر کمزوریوں کو قبول کرنے کےلئے ہوتے ہیں۔جو کچھ کمزوریاں ہے اس کےلئے میں ذمہ دار ہوں اور جو کچھ اس مدت میں اچھائیاں ہوئی ہیں اس کےلئے جماعت کے ارکان کی اجتماعی کوشش ذمہ دار ہے۔یقینا ا س مدت میںجماعت کے دائرہ کار میں توسیع ہوئی ہے، لوگوں کی وابستگی میں اضافہ ہوا ہے۔نوجوان طبقہ ہم سے جوڑنے لگا ہے۔کئی ادارے قائم ہوئے ہیںاور نئے نئے علاقوں میں کام ہورہے ہیں۔کوروناکی وجہ سے ہمارے بہت سارے عزائم اور منصوبے ادھورے رہ گئے ہیں ۔مگر کورونا وائرس کے دور میں جماعت اسلامی نے پورے ملک میں فلاحی کاموںکو بڑے پیمانے پر انجام دیا ہے۔ خدمت خلق کا جذبہ کھل کر سامنے آیا ہے۔اس کی وجہ سےجماعت اسلامی کے مشن سے لوگوں کو واقفیت ہوئی

انصاف نیوز
جماعت اسلامی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ اشرافیہ طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔کیا یہ صرف الزا م ہے یا پھر اس میں کچھ سچائی بھی ہے؟
سید سعادت اللہ حسینی
یہ مکمل سچائی نہیںہے۔ جماعت میں ہرطبقے کے افراد ہیں ، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ میڈل طبقے کے افراد زیادہ ہیں ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے سماج کے تمام طبقات تک اب بھی ہم نہیں پہنچ پائے ہیں ، دیہی علاقوں میں ہماری موجودگی کم ہے، کئی شہروں میں بھی توقعات کے مطابق کام نہیں ہوئے ہیں ۔کلکتہ جیسے بڑے شہر میں افراد ی قوت کے باوجود ہم توقعات کےمطابق کام نہیں کرپائے ہیں ۔بنگال کے دیہی علاقوں میں ہمارے افراد بہت ہی اچھے طریقے سے کام کررہے ہیں ۔

انصاف نیوز
ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامہ میں جہاں ہندو راشٹر اور مسلمانوں کو دورے درجے کا شہری بنانے کی بات ہورہی ہے ور ہنگامہ آرائیاں کی جارہی ہیں ۔ان حالات میں اس ملک میں اپنےدینی تشخص کے بقا کے ساتھ قائم و دائم رہنے کےلئے امت کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔؟

سید سعادت اللہ حسینی
اس میں سب سے اہم چیز قرآن کریم کی رہنمائی ہے۔قرآن کریم نے ہمارے لئے جو کردار متعین کئے ہیں ہمیں ا س کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کا سب سے بڑامسئلہ یہی رہا ہے کہ اپنی صحیح پوزیشن کو ہم نے کبھی سمجھا نہیں ہے ۔اللہ تعالی نے مسلمانوںکو خیر امت قرار دیا ہے۔۔کنتم خیر امت اخرجت للناس ’مسلمان سارے انسانوں کےلئے بنائےگئے ہیں ۔ان کا کام اپنے آپ تک محدود نہیں ہے۔تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کےلئے کام کرنا، ان کےلئے امن قائم کرنا ان کے لئےانصاف کے حصول کی راہ آسان کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔اگر مسلمان اس پوزیشن کے ساتھ آگے بڑھتے تو پوزیشن کچھ اور ہوتی ۔ہم نے اپنے آپ کو قوم ، کمیونیٹی سمجھ لیا ۔ہم نے یہ سمجھ لیا کہ ہم مسلمان ہیں تو ہماراکام مسلمانوں کےلئے کام کرنا ہے۔مسلمان تنظیم ہے تو مسلمان کی فلاح وبہود کرنا کام کرنا ہے۔ا س کی وجہ سے ہم گھیٹو بنتے چلے گئے ۔تو میںسمجھتا ہوں کہ مسلمان اپنی اصل پوزیشن کو سمجھیں ۔اللہ تعالی نے قرآن میں مسلمانوں پوزیشن واضح اور متعین کردی ہے کہ مسلمان نہ کوئی کاسٹ ہے نہ کوئی کمیونیٹی اور نہ کوئی ریس ۔بلکہ ہم سارے انسانوں کےلئے کچھ اصول اور کچھ پرنسپلوں کے علمبردار ہیں ۔ان اصول اور پرنسپلوں کے ساتھ ہم کام کرنے ہوں گے۔

نوراللہ جاوید

متعلقہ خبریں

تازہ ترین