Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںمغربی بنگال میں ایک بارپھر اردو تحریک کی ضرورت :محمد فاروق اعظمی

مغربی بنگال میں ایک بارپھر اردو تحریک کی ضرورت :محمد فاروق اعظمی

محمد فاروق اعظمی

کہتے ہیں کہ 12برسوں میں دن پھر جاتے ہیں۔اس سلسلے میں کئی ناپاک جانوروں کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں لیکن مغربی بنگال کے اہل اردو اتنے بدنصیب ہیں کہ دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے12ویں برس میں قدم رکھنے والے ہیں لیکن ان کے دن پھرنے کے آثار دور دور تک نظر نہیںآرہے ہیں ۔ ستم تویہ ہے کہ ان کے پاس جو موجود تھااسے بھی چھین لیاگیا اور یہ اہل اردو مزاج یار کے مطابق سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ کیا مجال کہ کہیں سے اُف کی بھی آواز آجائے۔

ممتابنرجی کی قیادت میں مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس حکومت نے2012کے اپریل میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیتے ہوئے یہ اعلان کیاتھا کہ جن اضلاع یا علاقوں میں10فی صد یا اس سے زیادہ اردو بولنے والے ہیںوہاں اردو ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہوگی ۔ اس اعلان کے بعد سے امید تھی کہ اردو کی حالت زار میں تبدیلی آئے گی ۔ اردو تعلیم و تعلم کا سلسلہ بہتر ہوگا اور اردو کو روزی روٹی سے جوڑنے جانے کی سمت عملی کارروائی کی جائے گی ۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ 2012 کے بعد سے اب تک کئی اردو اسکول دھیرے دھیرے دم توڑ چکے ہیں ۔ پرائمری سطح پر اردو کی پڑھائی منظم سازش کے تحت ختم کی جارہی ہے۔ اردو اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی ختم کردی گئی ہے۔اردو اسکولوں میںزیادہ تر اسامیاں ریزرویشن کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں اور حکومت یہ عذر پیش کررہی ہے کہ ریزرویشن کے زمرہ میں کوئی اردو امیدوار دستیاب نہیں ہے ۔ یہ صورتحال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ سبکدوش ہونے والے اساتذہ کی جگہ نئے استاد کی بحالی ممکن نہیں رہی ہے۔ اس عضوضعیف پرایک اور نزلہ یہ گرایاگیا کہ مسابقتی امتحانات میں اردو کے التزام کو بھی ختم کردیاگیا۔300نمبروں والے اردو پرچہ کی جگہ300نمبر بنگلہ پرچہ شامل کرکے اردو کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں ایساکوہ گراں کھڑاکرکے اہل اردو کو یہ چیلنج دیاگیا ہے کہ ہمت ہے تو اسے کھسکاکے دکھائیں۔لیکن اپنی ریڑھ کی ہڈی گنواچکے اہل اردو حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریزی کی حالت سے اٹھنے کو تیار نہیں ہیں ۔

اردو زبان پر ظلم و ستم اور اردو کو ختم کرنے کی اس منظم سازش میں رہ رہ کر وہ تحریک یادآرہی ہے جس نے اردوکو دوسری سرکاری زبان کے درجہ تک پہنچانے میںدن رات ایک کردی تھی۔ قائد اردو کے نام سے موسوم کئے جانے شمیم احمد کی قیادت میں چلائی جانے والی اردو تحریک کی ہنگامہ خیزی کا ہی اثر تھا کہ34برسوں کی بایاں محاذ حکومت متزلزل ہوگئی ۔مغربی بنگال میں اردو کی کم نصیبی کے خاتمہ کا عزم لے کر اٹھنے والے شمیم احمد کی اردو تحریک میں جوتاپالش کی مہم‘ اخبار فروشی مہم اور اردو نہیں تو ووٹ نہیں کے نعروںکی گونج نے ایوان حکومت کے درو بام ہلادیئے تھے ۔یہ اس تحریک کے بے لوث ہونے کی ہی نشانی تھی کہ اس تحریک کو زبان کے معاملے میں تعصب کی حد تک سخت سمجھے جانے والے بنگالیوں نے بھی ان کا ساتھ دیا ‘ ہندو سکھ بھی ان کی تحریک میں شامل ہوئے لیکن بایاں محاذ کی حکومت اردو کی بات سننے پر آمادہ نہیں ہوئی۔

اردو تحریک کی اردو عوام میں مقبولیت کافائدہ اٹھاتے ہوئے ترنمول کانگریس کی موقع پرست قیادت آگے بڑھی قائد تحریک شمیم احمد کو ملاقات کیلئے مدعو کیا اور دو گھنٹوںکی طویل بات چیت کے بعد ممتابنرجی اوراس وقت ان کے سپہ سالار مکل رائے نے یہ وعدہ کیا کہ اردو کو اس کے جائزحقوق دیئے جائیںگے شرط یہ ہے کہ اردو عوام ترنمول کانگریس کی مکمل اور یک طرفہ حمایت کریں یہ بھول جائیں کہ ترنمول کانگریس اور ممتابنرجی این ڈی اے میںشامل ہوکر بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت کا حصہ بھی بنی تھی۔ اردو عوام نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فراموش کردیا کہ ممتابنرجی بی جے پی کی حلیف رہ چکی ہیں ۔ ممتابنرجی نے بھی اردو سے اظہار محبت کا وہ چولا پہنا کہ مسلمانوں کے جلسوں میں باحجاب شامل ہوکر ان شااللہ اور خداحافظ کا وردہ کرنے لگیں ۔

اردو والوں کو یہ یقین دلایا کہ اردو کو نہ صرف دوسری سرکاری زبان کا خلعت فاخرہ عطا کیاجائے گابلکہ حکومت جود و سخا کا وہ مظاہرہ کرے گی کہ جسے رہتی دنیا تک اہل اردو یاد رکھیں گے۔اردو اسکولوں میں اساتذہ بحال کئے جائیں گے۔ نہ صرف اردو بحیثیت زبان پڑھائے جانے کے بہتر انتظامات ہوں گے بلکہ دوسرے مضامین کو اردو میں منتقل کئے جانے کا اہتمام کیاجائے گا۔ مترجمین کی بحالی کی جائے گی ‘ سرکاری دفاتر‘ تھانوں‘اور دیگر متعلقہ اداروں میں اردو مترجم‘ نائب مترجم اورا یسی درجنوں عہدہے وضع کئے جائیںگے جو اردو زبان کے فروغ کا سبب بنیںگے ۔ترنمول کانگریس کے ان وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اردو تحریک نے ممتابنرجی کی مکمل حمایت کی اور ایک ایک اردو والوں کو اردو کی ترقی کی دہائی دیتے ہوئے بایاں محاذ کے خلاف ممتابنرجی کا ہاتھ مضبوط کیا۔ 2011میں ترنمول کانگریس کی حکومت قائم ہوئی اور 6-7مہینوں کے بعد سنتھالی‘ ہندی‘ نیپالی‘ اوڑیہ ‘ گرمکھی کے ساتھ اردو کو بھی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا۔ حالانکہ تحریک شمیم احمد کی قیادت میں صرف اردو والوں نے چلائی تھی اور ممتابنرجی کی حکومت قائم کرنے میں اپنا خون پسینہ ایک کردیاتھا ۔ مگر پھل کھانے کے وقت دسترخوان پر ممتابنرجی نے سبھوں کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا۔اردووالوں کی وفا اور محنت کاکوئی خصوصی صلہ نہیں دیاگیا۔اسی وقت یہ احساس ہوچلا تھا کہ اردو کیلئے کئے جانے والے وعدے پورے نہیں ہوں گے مگر کیاخبر تھی کہ اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہوگا۔

مغربی بنگال کے درجنوں پرائمری اردو اسکول بندہوچکے ہیں ‘ ہائی اسکول میں اردو میں دوسرے مضامین پڑھانے والے اساتذہ تو دور کی بات ہے کہ اردو مضمون کے اساتذہ کی بحالی بند ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں اردو طلبا طالبات کی تعداد روز بہ روز گھٹتی جارہی ہے ۔ ریزرویشن کا عقرب اردو پڑھنے والے نوجوانوں کی ملازمت کی راہ میں ڈنک بچھائے بیٹھاہوا ہے ۔ اب تو مسابقتی امتحان میں بنگلہ لازم ٹھہراکر اردو کی دوسری سرکاری زبان کی حیثیت کا ہی گلا گھونٹ دیاگیا ہے ۔اردو پڑھ کر مغربی بنگال پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں شامل ہونا ایک خواب بنادیاگیا ہے ۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ اردو اسکولوں میں بنگلہ پڑھانے کی وکالت بھی شدو مد سے ہورہی ہے اور کہاجارہاہے کہ مغربی بنگال کی سرکاری زبان بنگلہ ہے اس لئے اردو والوں کو بنگلہ پڑھنا چاہئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں اردوکو بنگلہ ہی نہیں بلکہ تمل اور ملیالم بھی پڑھناچاہئے کہ نہ پڑھنے کے جرم میں انہیں ملازمت کے مواقع سے محروم کردینا کسی بھی حال میںجائز نہیں ہوسکتا ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار پھر اسی طرح اردو تحریک سرگرم ہوجس طرح آج سے 12برس پہلے قائد اردو شمیم احمد کی اردو تحریک تھی ۔ حکومت کو عرضداشت دینے کے ساتھ ساتھ ‘ جلسے جلوس‘ احتجاج‘ مظاہرے اور وہ تمام طریقے اختیار کئے جائیں جو جمہوریت میں اپنا حق لینے کیلئے عوام کو حاصل ہیں ۔ورنہ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ کتنے ہی12برس گزرجائیں گے اردو کا دن نہیں پھرے گا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین