Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںبنگال اردو اکیڈمی کی نئی کمیٹی میں شمولیت کیلئے لابنگ کا سلسلہ...

بنگال اردو اکیڈمی کی نئی کمیٹی میں شمولیت کیلئے لابنگ کا سلسلہ شروع

نئی کمیٹی میں کوئی خاص تبدیلی کی امید نہیں۔دسترخوان پر ہالہ بناکر بیٹھنے والے دوست و احباب اور پارٹی ورکروںکو ترجیح دی جائے گی۔پرانی کمیٹی کے کئی نام کٹنے کی توقع۔

کلکتہ :انصاف نیوز آن لائن

مغربی بنگال اردواکیڈمی مجلس انتظامیہ کی مدت مکمل ہونے کے بعدنئی کمیٹی میں شمولیت کیلئے لابنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔تاہم یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ موجودہ کمیٹی کے ممبران کو ہی باقی رکھا جائے گا کیوں کہ ردو اکیڈمی کے وائس چیرمین نے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ انہوں نے موجودہ کمیٹی کے ممبران کے نام کو اگلے مدت کیلئے بھیج دیا ہے۔اس لئے موجودہ کمیٹی کے ممبران مطمئن ہیں وہ دوبارہ کمیٹی میں واپس آرہے ہیں ۔

لیکن انصاف نیوز آن لائن کو ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ نئی کمیٹی میں کئی پرانے چہرے کی واپسی توہوگی تاہم کئی ناموں کو حذف کیا جائےگا ۔دراصل جو فہرست دیکھا ئی گئی ہے وہ فہرست حکومت کو بھیجی ہی نہیں گئی ہے اور ایک نئی لسٹ بھیجی گئی ہے۔دوسری طرف ترنمول کانگریس کے کئی اور سینئر لیڈروں نے اپنے اپنے طور پر بھی نام بھیج رہے ہیں ۔ شمالی کلکتہ سے ممبر پارلیمنٹ سدیپ بندو پادھیائے کے پاس بھی کئی افراد جارہے ہیں اور ان سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کررہے ہیں ۔ ماضی میں بھی کمیٹی کی تشکیل میں ان کی رائے کو اہمیت دی گئی ہے۔

اس کو خبر کو پڑھنے کےلیے لنک پر کلک کریں

بنگال اردو اکیڈمی کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں ممبروںکاا انتخابات خالص سیاسی بنیادوں پر ہوتا ہے جب کہ ہندی اکیڈمی، بنگلہ اکیڈمی اور دلت اکیڈمی کی صورت حال اتنی خراب نہیں ہے۔وہاںبھی سیاسی ہمدردو کا انتخاب کیا جاتا ہے مگر زبان و اداب کے تئیں صلاحیت و قابلیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔جب کہ بنگال اردو اکیڈمی خالص سیاسی وفاداری ہی پیمانہ ہے۔خانہ پری کیلئے ایک دو اردو کے پروفیسر اور شاعر کو کمیٹی کا حصہ بنایا جاتا ہے تو وہاں بھی پیمانہ خوشامد ہی ہوتا ہے۔

عمومی طور پر خود مختار اداروں میں کسی کو بھی دو مرتبہ سے زائدمرتبہ ممبر نہیں بنایا جاتا ہے۔دومدت کے بعدکمیٹی میں مکمل طور پر نئے افراد کو لایا جاتا ہے تاکہ عزم و حوصلہ اور نئے آئیڈیا زکے ساتھ کام کرسکیں ۔مگر گزشتہ 12سالوں سے بنگال اردو اکیڈمی کی مجلس انتظامیہ کے ممبران میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔چند ممبران 2011سے ہی ممبرہیں ظاہر ہے کہ یہ روایات اور اصول کے خلاف ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ 2011میں ممتا بنرجی کی قیادت میں حکومت سازی کے بعد ایک نئی روایت شروع ہوئی ہے کہ اردو ادیب و شعرا اور دانشوروں کو مجلس انتظامیہ جگہ دینے کے بجائے سیاسی ورکر ، پارٹی کارکنان اورمسلم لیڈر کے دوست و اقارب کو جگہ دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اس کا اثرمغربی بنگال اردو اکیڈمی کی کارکردگی پر بھی مرتب ہوا ہے۔فنڈ ز کی فراوانی کے باوجود گزشتہ 11سالوں میں اردو اکیڈمی اردو کو فروغ دینے کےلئے بنیادی کوششیں کرنے کے بجائے ہنگامہ آرائی ، سمینار ، مشاعرے پر اپنی توجہ زیادہ مبذول کی ہے۔آخری تین چار سالوں میں تو جشن کی سیریزکا انعقاد کیا گیا ہے۔

انصاف نیوز آن لائن کو ذرائع سے ملی اطلاعات کے مطابق گزشتہ 12سالوں سے اردو اکیڈمی کی ممبری شپ کا لطف لینے والے ایس حیدر شاید اگلی کمیٹی کا حصہ نہیں ہوں گے۔ایسے ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے اس کو بنیاد بناکر ان کو ہٹانےکی کوشش کی جارہی ہےتاہم ایس حیدر آسانی سے شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں انہوں نے اپنے طور پر تگ و دو جاری رکھا ہے۔اسی طرح ایک دو پروفیسر جو کمیٹی کا حصہ تھے ان کی جگہ کوئی نئے پروفیسر کو لانے پر غور کیا جارہا ہے۔مولانا آزاد شعبہ اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر دبیر احمد تیسری مرتبہ بھی اردو اکیڈمی کے ممبر بن سکتے ہیں ۔انہوں نے چہار جانب اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ ہرایک کے گڈ لسٹ میں بھی ہے۔

ذرائع کے مطابق راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ جو فہرست بھیجی ہے ان میں ماضی کی طرح ان کے کئی قریبی دو ست واحباب اور پارٹی ورکروں کے نام ہیں ۔پرانے دوست و احباب کے ساتھ ساتھ نئے دوستوں کو بھی ایگزیکٹیونہیں تو جنرل ممبر کیلئے ان کے نام بھیجے گئے ہیں ۔

خضر پور سےنمائندگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ دنوں خضر پور میں ایک سیاسی گھرانے جن کی وفاداری اس وقت ترنمول کانگریس سے ہے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جمال الدین شمس کی قیادت میں اردو بچائو کی مہم شروع کی گئی ہے۔قریبی حلقے کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ریاستی وزیر فرہاد حکم پر دبائو بنانے کی کوشش ہے۔چوں کہ مہم کی شروعات کے وقت کو لے کر بھی سوال کھڑے کئے جارہےہیں ۔کیوں کہ 6مہینے قبل ہی بنگال سول سروس امتحان سے اردو کو نکال دیا گیا تھا مگر اچانک انہیں اب اس مہم کو شروع کرنے کی فکر کیوں ہوئی؟۔کہیں اس کے پیچھے سیاسی مقاصد تو نہیں ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہےکہ ایک طرف بنگال اردو اکیڈمی کی مجلس انتظامیہ میں شمولیت کیلئے لابنگ ہورہی ہے تو دوسری طرف بنگال اردو اکیڈمی عملہ سے خالی ہوتا جارہا ہے ۔ 2024کے اختتام تک اکیڈمی میں صرف تین سے چار مستقل عملہ باقی رہ جائے گا۔کیوں کہ 2024میں کئی افراد ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔دراصل 1992سے بنگال اردو اکیڈمی میں کوئی بحالی نہیں ہوئی ہے۔کام چلانے کیلئے عارضی عملہ سے کام لیا جارہا ہے یا پھر ریٹائرڈ ہونے والے عملہ کی مدت میں ایک یا دو سال کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔رخصت پذیر کمیٹی نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے۔جب کہ اس سال کی شروعات میں انصاف نیوز آن لائن اپنی اسٹور ی میں اس کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی۔کئی سالوں سے عملہ کی دودرجن سیٹیں خالی ہیں اگر اس کو پر کرنے کی کوشش کی جائے تو کئی اردو طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو روزگار مل سکتاہے مگراپنے اعزازیہ کو 500روپے سے 2000روپے ت اضافے کرنے والوں نے گزشتہ 12سالوں میں کوئی توجہ نہیں دی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین