روہنی سنگھ
وادی کشمیر کے حسین نظاروں کا لطف اٹھانا اور سرینگر کی جھیل ڈل میں ہاؤس بوٹ میں رات گزارنا یادگار لمحات ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو تروتازہ کرنے کے لیے میں برسوں سے چھٹیوں میں فیملی کے ساتھ کشمیر جاتی رہتی ہوں۔ ایک بار تو شدید سردی میں بھی مجھے کشمیر جانے کا دورہ پڑا تاکہ اپنی آنکھوں سے برف باری ہوتے ہوئے دیکھوں، واقعی کیا نظارہ تھا۔ اب اس وادی اور اس کے نظاروں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے؟ پچھلے تین برسوں سے، جب بھی کشمیر جانا ہوا، لگتا ہے کسی انجان جگہ آ پہنچی ہوں۔
لگتا ہے یہ وہ کشمیر نہیں ہے، جہاں میں آتی تھی۔ ایک خاموشی سی طاری ہے۔ زندگی سے بھرپور اور ہنستے کھیلتے دوست و احباب بات کرتے ہوئے انتہائی محتیاط رہتے ہیں۔ کانا پھوسی کرنے سے قبل بھی آس پاس دیکھتے ہیں، دیوار بجا کر چیک کرتے ہیں کہیں اس کے کان تو نہیں ہیں۔
چند روز قبل، جب میں نے صحافی انورادھا بھسین کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’دا ان ٹولڈ سٹوری آف کشمیر، اے ڈیسمینٹل سٹیٹ آفٹر آرٹیکل 370‘‘ پڑھی تو لگا کہ جیسے اس نے میرے ہی تاثرات کو زبان دی ہے۔ ان کی یہ سطور کہ ’’میرے لیے اب یہ تصور کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ جس کشمیر کو میں بچپن سے اور صحافت کے ابتدائی دنوں سے جانتی تھی، وہ اب کہیں خوابوں اور خیالوں میں کھو گیا ہے‘‘، نے مجھے خاص طور پر جھنجھوڑکر رکھ دیا۔
بھسین لکھتی ہیں، ’’گھر کسی بھی فرد کے لیے سب سے محفوظ جگہ ہوتی ہے۔ جب آپ کی حفاظتی دیوار ہی ٹوٹ جائے، فوج، نیم فوجی دستے اور پولیس کے افراد اس دیوار کو پھاند کر آپ کو اپنے ہی گھر میں گالیاں اور دھمکیاں دیں، ماریں۔ جب گھرو ں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جائیں۔ آنسو گیس کے گولے آپ کے بیڈ روم میں گھس جائیں۔ سرچ آپریشن کے نام پر نعمت خانوں میں سردیوں کے لیے جمع کی گئی دالوں کو چاولوں میں اور اناج کو تیل میں ملا کر اس کو کھانے کے لیے ناقابل بنا کر، بے گھروں پر چھاپے مار کر ہراساں اور تذلیل کرنا معمول سا بن جائے، تو اس کو کیا کہیں گے۔ شاید یہ محض بس اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ عوام میں ایک خوف پیدا کیا جائے‘‘ ۔
جب میں یہ صفحات پڑھ رہی تھی تو لگتا تھا یا تو کوئی بالی ووڈ فلم دیکھ رہی ہوں یا سوویت یونین یا سابق مشرقی جرمنی کی خفیہ ایجنسی کی کارروائیوں پر مبنی کوئی ناول پڑھ رہی ہوں مگر یہ کوئی افسانہ نہیں تھا۔
بقول بھسین پانچ اگست 2019ء کے بعد خطے میں قبرستان کی سی خاموشی طاری کی گئی ہے اور اس کو امن کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس دن آرٹیکل 370 کے تحت اس خطے کو تفویض کیے گئے حقوق کالعدم قرار دیے گئے۔ ایک ریاست کو تحلیل کر کے اس کے دو حصے کر کے دو مرکزی انتظام والے علاقے بنائے گئے۔ اب اگر یہ مقامی آبادی کی مرضی سے یا ان کے ذریعے منتخب اسمبلی کے ذریعے کیا جاتا تو شاید ہرج نہیں تھا مگر ان فیصلوں کو ان پر ٹھونس دیا گیا۔
بھسین جموں سے شائع ہونے والے اس خطے کے سب سے پرانے انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کی مدیر ہیں اور وہ اپنے والد وید بھسین کی میراث اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں، جن کو جموں و کشمیر کی جدید صحافت کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔
جب نو اگست 2019ء کے بعد کشمیر میں انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی، اس وقت انورادھا بھسین نے بھارت کی سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی۔ بھسین نے کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ صوبہ بھر میں صحافیوں اور میڈیا کے اہلکاروں کے لیے ایک سازگار ماحول بحال کرنے کے لیے حکومت کو ہدایات دے۔
وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، ’’بطور صحافی میرے پاس صرف دو ہی راستے تھے۔ یا تو خاموش رہوں یا پھر سختی کے خلاف آواز بلند کروں‘‘۔
وہ شاید اس وقت ریاست کی واحد آواز ہیں، جو کشمیر کی صورت حال کے بارے میں بے باکی سے لکھتی ہیں۔
میں نے جب ان سے فون پر پوچھا کہ ایسے وقت، جب بہت سے سینئر صحافی اور سیاستدان خاموش ہو کر بیٹھے ہیں، جیسے کسی بل میں گھس کر چھپ گئے ہوں، ان کو یہ ہمت کہاں سے ملی؟
تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدکی زندگی ان کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے کام کرنے کے طریقے نے ان کو رہنمائی عطا کی، ’’میرے والد وید بھیسن کہتے تھے کہ سچ ہر قیمت پر سامنے آنا چاہیے اور اگر میں سچ نہیں بول سکتی تو بہتر ہوتا کہ پھر صحافت کے علاوہ میں کچھ اور کرتی‘‘۔
آج کے دور میں کشمیر میں کسی بھی صحافی کو ایک ٹویٹ کے لیے بھی تھانے میں بلایا جاتا ہے۔ فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے جاتے ہیں، اس کے اہل خانہ کو بھی حکام ہراساں کرتے ہیں۔
وہ تسلیم کرتی ہے کہ اب وہ اس طرح آواز بلند نہیں کرتی ہیں، جیسا کہ وہ ماضی میں کر تی تھیں،’’ہاں ایک غیر مسلم ہونے اور جموں اور پھر سرینگر میں دونوں جگہ کی رہایشی ہونے کے ناطے شاید میری پوزیشن میرے کشمیری مسلمان ساتھیوں سے کچھ بہتر ہے‘‘۔
اگرچہ حکومتوں کا رویہ کشمیر کی سیاسی تحریکوں کے تئیں ہمیشہ ہی امتیازی رہا ہے مگر پھر بھی سول سوسائٹی اور عام لوگوں کو احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر آنے دیا جاتا تھا۔ لیکن اگست 2019ء کے بعد کشمیر میں لوگوں کو ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے، جہاں بولنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
پہلے لوگ، جو سکیورٹی فورسز کے خلاف شکایات درج کراتے تھے، انہیں اب اس قدر خوف زدہ کر دیا گیا ہے کہ شکایات درج کرنا تو دور، اب اس کے بارے میں میڈیا میں ذکر کرنا بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
بھسین کا کہنا ہے کہ کتاب لکھنے کے دوران ایک بڑا چیلنج متاثرہ لوگوں سے ان کی اصل کہانی جاننا اور صورت حال پر معلومات حاصل کرنا تھا۔ پہلے متاثرین معلومات دینے کے لیے فون کیا کرتے تھے لیکن اب حکومت کے خوف سے لوگ ان سے گزارش کرتے نظر آئے کہ ان کا اصل نام سامنے نہ لایا جائے۔
بھسین کی کتاب کشمیر کے درد ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔
انو رادھا بھسین بھارت کے سیکولر طبقہ کو خبردار کرتی ہیں کہ کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ تجربات ان پر بھی کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے سیکولر اور لبرل طبقے کو اپنی خاموشی توڑ کر کشمیر میں ہونے والے اقدامات کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے ورنہ اگلی باری ان کی ہے۔