Saturday, July 27, 2024
homeہندوستانگرائونٹ رپورٹبہار کے سرکاری اسکولوں سے طلبا کہاں چلے گئے؟

بہار کے سرکاری اسکولوں سے طلبا کہاں چلے گئے؟

جن جاگرن شکتی سنگھٹن کے سروے رپورٹ میں حیرت انگیز انکشافات۔اسکولوں میں محض 20فیصد حاضری۔مسلم اکثریتی علاقوں میں حالات مزید خراب۔ڈراپ آئوٹ کی شرح میں نمایاں اضافہ

نوراللہ جاوید
بہار میں تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے بحران کا شکار ہے۔ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے پرائمری اسکولوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک سبھی شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔ ہر سال لاکھوں طلبا صرف اس وجہ سے بہار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہاں کا تعلیمی ڈھانچہ انتہائی خراب ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست بہار پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے اسکولوں کی تعداد کے لحاظ ملک کی پانچ سرفہرست ریاستوں میں شامل ہے۔ بہار میں کل 40,652 پرائمری اسکولس ہیں مگر اپر پرائمری یعنی پانچویں جماعت سے دسویں جماعت تک کے اسکولوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ ملک بھر میں دسویں مقام پر ہے۔ اس کے علاوہ ترک تعلیم کرنے والوں (ڈراپ آوٹس) کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ 32 فیصد ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ کالجوں میں امتحانات وقت پر نہیں ہوتے۔ یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ ریاست بھر میں ٹیوشن مافیا اس قدر حاوی ہے کہ دسویں کے بعد طلبا کلاس روم کے بجائے ٹیوشن سنٹروں میں بھیڑ لگائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

راجستھان میں ملک میں سب سے زیادہ 83 یونیورسٹیاں ہیں۔ بہار گنجان آبادی والا اسٹیٹ ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں دس سرفہرست ریاستوں میں جگہ نہیں بنا پایا ہے۔ اسی طرح ملک میں اتر پردیش میں سب سے زیادہ 7,780 کالجز ہیں، جبکہ آبادی کے اعتبار سے بہار ملک کی تیسری سب سے بڑی آبادی والی ریاست ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ بہار میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پس ماندوں کی سیاست کرنے والی پارٹیاں حکم رانی کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود پس ماندگی کے شکار افراد کی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قابل لحاظ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے 4 اگست کو جن جاگرن شکتی سنگھٹن (جے جے ایس ایس) کی ایک سروے رپورٹ نے بہار میں تعلیمی نظام کی خامیوں اور عوام کے عدم اعتماد کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ رپورٹ میں طلبا کی حاضری، بنیادی ڈھانچہ، مڈڈے میل، نصابی کتابوں کی فراہمی اور یونیفارم کے متعلق تفصیل سے رپورٹ پیش کی ہے۔ ماہر اقتصادیات جین ڈریز نے اس رپورٹ کے تناظر میں بہار میں اسکولوں کی بدحالی کو ’’اسکولنگ ایمرجنسی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس سروے رپورٹ میں جسے ’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ بہار کے پرائمری اور اپرپرائمری سرکاری اسکولوں میں صرف 20 فیصد طلبا کلاس میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کا معیار انتہائی خراب، بنیادی ڈھانچہ مایوس کن، دوپہر کا کھانا ناقص، نصابی کتابوں کی بروقت عدم فراہمی اور یونیفارم کی رقم براہ راسٹ اکاونٹ میں منتقل کرنے کا نظام بھی خامیوں سے دو چار ہے۔

جنوری اور فروری 2023ء کے درمیان جن جاگرن شکتی سنگھٹن (جے جے ایس ایس) نے بہار کے اضلاع کٹیہار اور ارریہ کے 81 سرکاری پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں کا سروے کرنے کے بعد نتائج اخذ کیے ہیں۔ اس سروے کا مقصد کورونا کے بعد ریاست کے اسکولی نظام کا جائزہ لینا تھا۔ بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں منعقدہ تقریب میں سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے ماہر اقتصادیات کہتے ہیں کہ جس دن یہ سروے کیا گیا اس دن اسکولوں میں صرف 20 فیصد اندراج شدہ طلباء موجود تھے۔ یہ شاید دنیا میں سب سے کم ہے۔ یہ ایک بہت بڑا بحران ہے۔ یہ صرف ارریہ اور کٹیہار تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پورے بہار کی یہی صورتحال ہے۔

سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جن اسکولوں میں سروے کیا گیا ہے ان میں سے کوئی بھی اسکول ’’حق تعلیم‘‘ (رائٹ ٹو ایجوکیشن) کی دفعات پر پورا نہیں اترتا۔حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا کی اکثریت غریب خاندانوں اور پس ماندہ طبقات سے ہے۔ جن دو اضلاع میں سروے کیا گیا ہے کہ ان میں مسلمانوں کی آبادی 43 فیصد ہے۔ سیمانچل کا یہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے غربت اور پس ماندگی کا شکار ہے۔معاشی تنگ حالی کی وجہ سے مسلمانوں کا انحصار سرکاری اسکولوں میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں اساتذہ کی شدید قلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تعلیمی نظام کو در پیش مسائل میں اساتذہ کی قلت بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ صرف 35 فیصد پرائمری اسکول اور صرف 5 فیصد اپر پرائمری اسکولوں میں ہر 30 بچوں پر ایک استاذ ہے۔ لازمی حق تعلیم ایکٹ کے مطابق 30 طلبا پر ایک استاذ کا ہونا لازمی ہے۔ مزید برآں سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تعینات کیے گئے اساتذہ میں سے صرف 58 فیصد ڈیوٹی پر تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار کے سرکاری اسکولوں میں تدریسی افرادی قوت کا بحران کس قدرگہرا ہے۔ ایک طرف اساتذہ کی تعداد انتہائی کم ہے اور دوسری طرف اساتذہ کی حاضری کی شرح صرف 58 فیصد ہے، یعنی 42 فیصد اساتذہ ڈیوٹی انجام نہیں دیتے ہیں۔

اس رپورٹ میں ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (DBT) اسکیم کے منفی اثرات کا ذکرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بہار میں نصابی کتاب اور یونیفارم کے لیے طلبا کے اکاونٹ میں براہ راست رقم بھیجی جاتی ہے مگر ان میں سے بیشتر طلبا کے والدین غربت کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے بنیادی ضرورتوں کی تکمیل اور کتابوں کی خریداری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے بیشتر اسکولوں کے طلبا کے پاس کتابیں اور یونیفارم نہیں ہوتے۔ رپورٹ میں سستے اور غیر معیاری ٹیوشن سنٹروں میں بے تحاشا اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے اسکولوں کے ویران ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس طرح کے ٹیوشن مراکز کا غیر صحت مند ماحول بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے خطرہ ہے اور معیاری تعلیم تک ان کی رسائی میں رکاوٹ ہے۔

مڈ ڈے میل اور دیگر مالی فوائد کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ مالی منفعت کے پیش نظر بچوں کا داخلہ کروایا جاتا ہے اس لیے تعلیم اور درس گاہوں میں حاضری سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ بہار کے محکمہ تعلیم نے گزشتہ سال گیا، نوادہ، اورنگ آباد، جہان آباد اور اروال کے اسکولوں میں اچانک دورہ کیا تو دیہی علاقوں میں قائم سرکاری اسکولوں میں نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے کمرے تقریباً خالی تھے۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ کلاس 9 اور 11 میں 10 فیصد سے کم طلباء موجود تھے جبکہ کلاس 10 اور 12 میں حاضری 5 فیصد سے کم تھی۔ بہار محکمہ تعلیم کے ایک افسر کے مطابق اہم بات یہ نہیں ہے کہ ہر سال کتنے بچوں کا اندراج ہو رہا ہے، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ڈراپ آوٹس کی شرح کیا ہے۔ اپر پرائمری اسکولوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح 6.4 فیصد ہے جبکہ سیکنڈری سطح پر یہ شرح 20.5 فیصد ہے۔

جن جاگرن شکتی سنگھٹن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 42 فیصد اساتذہ اسکول میں موجود نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اساتذہ فی الواقع غیر حاضر تھے؟ یہ مکمل سچ نہیں ہے بلکہ بہار میں اساتذہ سے غیر تدریسی امور میں کام لینے کا عام مزاج ہے۔ دوپہر کے کھانے اور سرو شکشا ابھیان کے علاوہ بہار میں یونیفارم، مفت سائیکل، مفت کتابیں اور مالی امداد سے متعلق کم از کم سات اسکیمیں ہیں جن میں اساتذہ مختلف کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بی پی ایل کارڈ، متعدد بیداری ریلی، انتخابی ڈیوٹی میں بھی اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اسکولوں میں طلبا کی کم حاضری کی وجہ سے 13,77 اسکول بند کیے جا چکے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 8,321 اسکولوں کو بند کرنے کے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد بڑی تعداد میں پرائیوٹ اسکول بند ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں اندراج میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ اسکولوں میں اساتذہ کی قلت ہے اور جو ہیں ان میں مضامین پڑھانے کی قابلیت نہیں ہے اس لیے پرائیوٹ ٹیوشن کی طرف بچے رخ کرتے ہیں۔

سروے میں بتایا گیا کہ 90 فیصد سے زیادہ پرائمری اسکولوں میں کوئی مناسب چہار دیواری، کھیل کا میدان یا لائبریری نہیں ہے اور 9 فیصد اسکولوں کے پاس اپنی عمارت نہیں ہے۔ مڈ ڈے میل کے معیار میں گراوٹ اس کے علاوہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مڈڈے میل میں انڈا ہفتہ میں دو مرتبہ دینا ضروری ہے مگر کچھ تنظیموں کی مخالفت کی وجہ سے بچوں کو انڈا نہیں دیا جاتا۔
اسکولوں میں ضرورت کے مطابق فرنیچر نہیں ہے، کلاس رومس دستیاب نہیں ہیں۔ بیشتر اسکولوں کے پاس میدان نہیں ہیں۔ 26 فیصد پرائمری اسکولوں اور 19 فیصد اپر پرائمری اسکولوں کے نمونے لیے گئے جن میں چہار دیواری نہیں تھی۔ کھلے میں رفع حاجت سے پاک بہار کے دعوے پر کئی سارے اسکولس سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ شمالی بہار کے اسکول کھلے میں رفع حاجت سے پاک نہیں ہیں۔ اکثر اسکولوں کے پاس بیت الخلا نہیں ہیں۔کچھ اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے صرف ایک بیت الخلا تھا، جس کا استعمال ممکنہ طور پر دونوں کرتے ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق بہار میں ہائر سیکنڈری سطح کے صرف 22.1 فیصد سرکاری اسکولوں میں تمام بنیادی مضامین (ریاضی، سائنس، زبان اور سماجی سائنس) کے اساتذہ ہیں۔ ہائر سیکنڈری سطح پر، ریاضی کا ایک استاد اوسطاً 462 طلبا کو پڑھاتا ہے اور ایک سائنس کا استاد 437 طلبہ کو پڑھاتا ہے۔ مالی سال 2022-23 کے لیے بہار میں تعلیمی بجٹ کے لیے 39,191,87 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ اتنی بڑی رقم مختص ہونے کے باجود بہار اکنامک سروے (2021-22) کے مطابق تقریباً 36.5 فیصد پہلی جماعت کے طلباء اپنی سیکنڈری تعلیم بھی مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس وقت بہار میں 42,572 پرائمری اسکول، 25,587 اپر پرائمری ،2,286 سیکنڈری اور 2,217 ہائر سیکنڈری اسکولس ہیں۔ اسکولوں کے لیے مختص بجٹ کا 68 فیصد تنخواہ، پنشن،مراعات اور دیگر ادائیگیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انفراسٹکچر، نئے اسکولوں کے قیام اور دیگر ترقیاتی کام کے لیے بجٹ کی کمی ہے۔نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق بہار اسکولی تعلیم کے معیار نیچے سے پانچویں پوزیشن پر ہے۔

سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (ASER) کے مطابق 2016ء سے سرکاری اسکولوں میں سیکھنے کی سطح میں مجموعی طور پر گراوٹ کا رجحان رہا ہے۔ 2018ء میں کلاس 8 کے تقریباً نصف طلباء ناکام رہے۔ ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 14-18 سال کی عمر کے 22.2 فیصد طلباء کلاس 2 کا متن بھی نہیں پڑھ سکتے۔ بہار حکومت نے کلاس 2 سے 10 تک کیچ اپ کورسز کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یونیسیف کے ایک مطالعہ کے مطابق، بہار میں 75 لاکھ سے زیادہ طلباء میں سیکھنے میں کمی اور دماغی صحت کے مسائل پائے گئے ہیں جس کی وجہ کووڈ کے دوران آن لائن سہولیات تک محدود رسائی اور گھروں تک محدود رہنا ہے۔ بہار میں صرف 4.6 فیصد اسکولس اسمارٹ کلاس رومز سے لیس ہیں۔ صرف 0.5 فیصد اسکولوں میں لائبریریاں ہیں۔

کیا بہار میں تعلیمی نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے؟
ظاہر ہے کہ امکانات کی دنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہے، مگر چونکہ بہار میں تعلیمی نظام کا بحران کوئی ایک دو سال میں نہیں ہوا بلکہ اس کی شروعات کئی دہائی قبل ہو گئی تھی، نتیجے میں آج نظام تعلیم مکمل طور پر درہم برہم ہو گیا ہے۔ اس لیے بہتری کی کوشش کے امکانات کے باوجود تعلیمی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے از سر نو تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں بھی تعلیمی نظام میں اصلاحات اور بہتری کے لیے چند مشورے دیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں لازمی حق تعلیم ایکٹ کے تمام اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ نیز تمام اسکولوں میں طلبا کے تناسب کے لحاظ سے اساتذہ کی تقرری کو یقینی بنانے کی صلاح دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اسکول کے اوقات میں ٹیوشن پڑھانے پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے اور جامع اصلاحات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ظاہر کی گئی ہے۔ ارریہ میں چلنے والے ’’UMS Chargharia ‘‘اسکول کے طرز پر بہار میں اسکولی تعلیم میں بہتری لانے کی تجاویز پیش کی ہے۔

دہلی اسکول آف اکنامکس میں اعزازی پروفیسر اور رانچی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر و ماہر معاشیات جین ڈریز کہتے ہیں ’’بہار کے اسکول کے مسائل کو پبلک ڈسکورس کا حصہ بنانا ضرروری ہے، اس کے بغیر بہتری ممکن نہیں ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ذات پات کی سیاست اور اب مذہبی تقسیم کے سوال پر منقسم بہار میں اسکولی نظام کے بحران پر کون بات کرے گا؟ المیہ یہ ہے کہ اسکولی نظام کے بحران کا سب سے زیادہ اثر غربت کا شکار، اقلیتوں، پس ماندہ طبقات اور دلت طبقے پر مرتب ہوتا ہے۔ مگر اس طبقے کے لیڈر بھی تعلیمی نظام کی بدحالی پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تعلیم کا پرائیوٹائزیشن، ٹیوشن مافیا کے بارڈر کو توڑنے کے لیے پر عزم قائد اور ایک تحریک کی ضرورت ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ بہار جو بعض پہلوؤں سے خصوصیات کا حامل رہا ہے، تعلیم کے سوال پر کب جاگتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین