اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین اور جمہوریت کا تحفظ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے، آئین میں تبدیلی اور ہندو راشٹر کے قیام کی باتیں کھلے عام ہونے لگی ہیں۔ان حالات میں اگر مختلف الخیال سیاسی جماعتیں جمع ہو کر عہدو پیمان کرتی ہیں تو اس کا ملک کے ہر انصاف پسند شہری کو استقبال کرنا چاہیے، کیوں کہ ملک کی ترقی جمہوریت اور آئین کے بقا میں ہی مضمر ہے۔ملک کا آئین ہر ایک شہری کو یکساں حقوق اور مواقع فراہم کرتا ہے۔ پٹنہ کے بعد بنگلورو میں اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ ہوئی جس میں مختلف ریاستوں میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہونے کے باوجو ’’دی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوزیو الائنس‘‘ (انڈیا) کے نام سے اتحاد کی تشکیل ہوئی۔ یہ اتحاد وزیر اعظم مودی کا طلسم توڑ پائے گا یا نہیں، این ڈی اے کے مقابلے میں یہ اتحاد ملک کے شہریوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوگا یا نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا تعلق مستقبل کے امکانات سے ہے۔ اس وقت کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی ہے۔ تاہم اس اتحاد کے عناصر ترکیبی کا تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ذریعے ہی اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ اس اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا، کیوں کہ اس اتحاد میں وہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو مختلف ریاستوں میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔
بایاں محاذ اور ترنمول کانگریس بنگال میں دو قطبی ہیں۔ ایک دوسرے کے سخت نقاد اور مخالف ہیں۔ کیرالا میں کانگریس اور بایاں محاذ ایک دوسرے کی مد مقابل ہیں۔اسی طرح پنجاب میں کانگریس اور عام آدمی کے درمیان مقابلہ آرائی ہے۔ ان ریاستوں میں کوئی بھی سیاسی جماعت دوسرے کے لیے ایک انچ زمین چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شیو سینا جیسی سیاسی جماعت بھی اس اتحاد کا حصہ ہے جب کہ ملک کے سیکولرازم اور جمہوری روایات پر اس کے ایمان و ایقان پر سوال باقی ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ جب مختلف الخیال و مفادات کے حامل جماعتیں جمع ہوسکتی ہیں تو آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین، اے آئی یو ڈی ایف، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، ایس ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی جیسی سیاسی جماعتوں کو اتحاد کا حصہ بنانے سے گریز کیوں ہے؟ اگرچہ کشمیر کی دو سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی قیادت والی پی ڈی پی اور کیرالا کی آل انڈیا مسلم لیگ اتحاد کا حصہ ہے لیکن ان تینوں سیاسی جماعتوں کی نوعیت الگ ہے۔ شمالی ہند بالخصوص بہار، اترپردیش، مہاراشٹر، تلنگانہ، بنگال اور آسام میں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے وہاں ان سیاسی جماعتوں کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے جب کہ تلنگانہ، مہاراشٹر، بہار اور دوسری ریاستوں میں اسدالدین اویسی کی قیادت والی ایم آئی ایم کا سیاسی اثرو رسوخ ہے۔ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی قیادت والی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف ریاست کی تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف نے مل کر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ اسی طرح بنگال میں آئی ایس ایف کا دیہی علاقے میں اثر و رسوخ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بایاں محاذ ایک بھی سیٹ جیت نہیں سکے تھے جب کہ آئی ایس ایف نہ صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی بلکہ کئی سیٹوں پر معمولی فرق سے شکست کا سامنا کیا۔ اس وقت پنچایت انتخابات میں آئی ایس ایف کا اسٹرائیک ریٹ بھی بہتر رہا ہے۔ اگر ان سیاسی جماعتوں کو اتحاد کا حصہ نہیں بنایا جاتا تو پھر ووٹوں کی تقسیم اور بی جے پی کے جیتنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، بالخصوص آسام میں نئی حدبندی کے بعد اگر کانگریس اور اے یو ڈی ایف مد مقابل ہوتی ہیں تو بی جے پی کی راہیں مزید آسان ہو جائیں گی۔ اسی طرح بہار کے سیمانچل میں جہاں گزشتہ انتخاب میں اویسی کی سیاسی جماعت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اگر اس مرتبہ بھی صورت حال یہی رہی ہے تو سیمانچل میں نصف درجن پارلیمنٹ کی سیٹوں پر بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ان حقائق کے ساتھ اگر ان جماعتوں کو اہمیت نہ دی جائے تو سوالات اٹھنے لازمی ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں ملک کی ان جماعتوں کو مدعو کیوں نہیں کیا گیا؟ مسلم لیڈروں کی قیادت والی پارٹیوں کے حوالے سے خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں ایسے موقعوں پر تنگ نظر اور فرقہ واریت کا شکار کیوں ہوجاتی ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیاسی جماعتیں بھی بی جے پی کی طرح فرقہ پرست ہیں؟
دراصل 2014 میں وزیر اعظم مودی کے عروج کے ساتھ ہی ملک میں مسلمان سیاسی اچھوت بن گئے ہیں۔ 2014 کے عام انتخابات میں کانگریس کی شکست کا جائزہ لینے کے لیے قائم کردہ اے کے انٹونی کمیٹی کی رپورٹ میں واضح لفظوں میں کہا گیا تھا کہ کانگریس کی شبیہ مسلم سیاسی جماعت کی بن گئی تھی جس کی وجہ سے کانگریس کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ گزشتہ نو سالوں میں کانگریس خود کو ہندو پرست سیاسی جماعت ثابت کرنے کے لیے نرم ہندوتوا کی راہ پر چل نکلی ہے۔ اس معاملے میں کانگریس واحد سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ ملک کی تمام نام نہاد سیکولر جماعتوں نے اسی پالیسی کو اختیار کرلیا تھا۔ انہیں صرف مسلم ووٹوں کی فکر ہے۔ ان جماعتوں نے اپنی پارٹی کی مسلم لیڈرشپ کو کنارے لگا دیا ہے۔ کل تک سماج وادی پارٹی میں اعظم خان کی طوطی بولتی تھی مگر آج اعظم خان کہیں کے نہیں رہے۔ ترنمول کانگریس، جسے مسلمانوں نے اقتدار میں تیسری مرتبہ پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے منشور میں لفظ مسلم تک کا ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں کانگریس نے اپنی اس پالیسی میں کچھ تبدیلی لائی ہے، بالخصوص راہل گاندھی کی بھارت یاترا کے بعد اس میں نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔
اگر ملکی سیاست میں اسدالدین اویسی کے عروج کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2014 کے بعد وہ ملک کی قومی سیاست میں تیزی سے ابھرے ہیں کیوں کہ نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں نے مسلم مسائل سے چشم پوشی کی پالیسی اختیار کی تھی اور دوسری طرف بی جے پی کے جارحانہ رویے کا اویسی کے ذریعے مناسب جواب دیے جانے کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر سیکولر سیاسی جماعتیں مسلم مسائل کے حل لیے آواز بلند کرتیں تو شاید اویسی کو وہ مقبولیت نہیں ملتی جو آج ہے۔ اویسی کے برخلاف مولانا بدرالدین اجمل کی سیاست کا دائرہ کار آسام تک محدود ہے مگر عوام میں نفوذ زیادہ ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی بنگالی نژاد آسامی مسلمانوں کو سخت چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ بدرالدین اجمل نے سیاسی جماعت تشکیل دینے سے قبل اپنے این جی اوز کے ذریعہ بڑے پیمانے پر سماجی، تعلیمی اور فلاحی کام انجام دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بدرالدین اجمل اور اسدالدین اویسی کے عروج کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹوں پر اپنی اجارہ داری رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو شدید نقصان ہوا ہے لیکن اس صورت حال کے لیے کسی حد تک خود یہی جماعتیں ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ جمہوری ملک میں ہر ایک شہری کو سیاست میں حصہ لینے یا اپنی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا حق ہے لیکن اگر کوئی مسلم لیڈر اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دیتا ہے تو پھر اسے کسی پارٹی کا ایجنٹ قرار دینا کہاں تک درست ہے؟ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیڈروں، بالخصوص بدرالدین اجمل اور اسدالدین اویسی کی امیج مسلم بنیاد پرست لیڈروں کے طور پر بنا دی گئی ہے۔اسدالدین اویسی کی تقریر جارحانہ اور مسلمانوں کے مسائل پر مرکوز ہوتی ہے شاید اسی لیے ممتا بنرجی سے لے کر اکھلیش یادو، نتیش کمار، تیجسوی یادو اور کانگریس، کوئی بھی اسد الدین اویسی کو ساتھ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کانگریس نے بدرالدین اجمل کی پارٹی کے ساتھ مل کر آسام اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن اس کے بعد سے ہی کانگریس نے ان سے دوری اختیار کر لی تھی۔ اپریل میں کانگریس نے شمال مشرقی ریاستوں کی سیاسی جماعتوں کی میٹنگ طلب کی تھی مگر اس میں بدرالدین اجمل کو طلب نہیں کیا گیا تھا۔ دراصل بدرالدین اجمل کی شبیہ اس طرح بنا دی گئی ہے کہ آسام میں ہونے والی دراندازی کے لیے وہی ذمہ دار ہیں۔ اس لیے اگر بدرالدین اجمل کو ساتھ لیا جائے تو آسامی نژاد ووٹروں سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔ آسام میں بدرالدین اجمل سے کنارہ کشی کے بعد سے ہی یہ اشارے مل رہے تھے کہ بی جے پی کے خلاف بننے والے ملک گیر اپوزیشن اتحاد میں اے یو ڈی ایف کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو خدشہ ہے کہ اگر اسدالدین اویسی اور بدرالدین اجمل ایک ساتھ میدان میں اترتے ہیں تو ان پر بھی مسلم نواز اور بنیاد پرست پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کا الزام لگ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار سے لے کر مغربی بنگال اور اب یو پی تک اپوزیشن جماعتیں بدرالدین اجمل اور اسدالدین اویسی سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مسلم سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ملک کی تمام پارٹیاں مسلم ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں، لیکن مسلم سیاست کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتیں۔ نہ تو کانگریس چاہتی ہے کہ مسلم قیادت آگے بڑھے اور نہ ہی ایس پی، آر جے ڈی، جے ڈی یو وغیرہ۔ اس معاملے میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا نظریہ ایک ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ مسلم پارٹیوں کو ساتھ رکھنے سے ان کی سیاسی اہمیت بڑھے گی تو مسلم ووٹر ان سے الگ ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں جاری سیاسی رجحانات کے باعث سیکولر پارٹیاں بھی ہندوتوا کے راستے پر گامزن نظر آرہی ہیں۔ مسلم سیاسی جماعتیں ان کے لیےاچھوت جیسی ہو گئی ہیں۔ صرف بدرالدین اجمل اور اسدالدین اویسی ہی نہیں بلکہ جب بھی کسی مسلم پارٹی نے قدم جمانے کی کوشش کی تو وہی پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں، بی جے پی کی طرح فرقہ وارانہ رنگ دکھانے لگتی ہیں۔ بی جے پی جس طرح مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے گریز کرتی ہے اسی طرح سیکولر پارٹیاں بھی مسلم سیاست کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتی ہیں۔ سیکولر پارٹیاں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے سامنے کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے، جس کی وجہ سے ووٹ دینا ان کی مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مسلم سیاسی ماہرین یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کب تک بی جے پی سے گریز کیا جاتا رہے گا اور کیوں نہیں بی جے پی سے ڈائیلاگ شروع کیا جاتا؟ لیکن بی جے پی جس طریقے سے مسلم دشمنی کی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس کے رویے میں تبدیلی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟