Friday, July 26, 2024
homeاہم خبریںبھارتی میڈیا پربڑی ذات کا غلبہ اپریل 2021 سے مارچ 2022 کے...

بھارتی میڈیا پربڑی ذات کا غلبہ اپریل 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان غیر سرکاری تنظیم آکسفیم انڈیا اور نیوز ویب سائٹ ‘نیو لانڈری کی طرف سے کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فردکا کسی بھی مین اسٹریم میڈیا ہاؤس میں قائدانہ کردارنہیں ہے

نئی دہلی(انصاف نیوز آن لائن)
2021-22 میں پرنٹ، ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم سمیت ہندوستانی میڈیا میں ہندئوں کے بڑی ذات کے تقریباً 88 فیصد عہدے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018-19 میں بھی ایسا ہی تھا، جس میں ہندوستانی میڈیا میں ذات پات کی نمائندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔بڑی ذات کے ہندو صحافیوں کا غلبہ برقرار رہے ۔

این جی اوآکسفیم انڈیا اور نیوز ویب سائٹ نیو لانڈری نے اپریل 2021 اور مارچ 2022 کے درمیان ایک مطالعہ کیا جس کا عنوان تھاہماری کہانیاں کون بتاتا ہے: ہندوستانی میڈیا میں پسماندہ ذات کے گروہوں کی نمائندگی۔
( (Who Tells Our Stories Matters:
Representation of Marginalized Cast Groups in Indian Media)
مطالعہ میں مختلف میڈیا اداروں میں مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نمائندگی کا تجزیہ کرنے کے لیے بائی لائن کاؤنٹ کا طریقہ استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس میں 218 قائدانہ عہدوں کا سروے کیا گیا۔ جن میں سے 191 پوسٹوں (88 فیصد) پر اعلیٰ ذات کے ہندئوں کا غلبہ ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ مین اسٹریم میڈیا ہاؤسز میں سے کسی میں بھی ایس سی/ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد قائدانہ کردار میں نہیں تھے۔ دو متبادل میڈیا پلیٹ فارمز میں قیادت کے عہدوں پر SC/ST زمرے کے دو لوگ تھے۔
2018-19 میں بھی صورتحال مختلف نہیں تھی۔ نیوز روم میں 121 قائدانہ عہدوں میں سے 106 (88 فیصد) اعلیٰ ذات کے ہندو صحافیوں کے قبضے میں تھے۔ 2019 کا مطالعہ اکتوبر 2018 اور مارچ 2019 کے درمیان اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام قسم کے میڈیا میں اینکرز اور رائٹرز جیسے عہدوں پر بھی اعلیٰ ذات کے ہندئوں کا غلبہ ہے

پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو انگریزی اور ہندی اخبارات میں 60 فیصد سے زیادہ بائی لائن آرٹیکل اونچی ذات کے لوگوں نے لکھے تھے۔ 5 فیصد سے بھی کم مضامین ایس سی/ایس ٹی کمیونٹیز کے لکھے گئے تھے اور 10 فیصد مضامین دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے تھے۔
تقریباً تمام رسالوں میں آدھے سے زیادہ مضامین اعلیٰ ذات کے صحافیوں نے لکھے تھے۔ کسی بھی اخبار میں ایس سی کی نمائندگی 10 فیصد سے زیادہ نہیں تھی اور ایس ٹی زمرہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی یا تو صفر تھی یا غیر موجود تھی۔
ہندی اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔ مطالعہ میں کہا گیاہے کہ و بی سی صحافیوں کی نمائندگی بہت کم تھی، اس کے بعد ایس سی اور ایس ٹی صحافی تھے، جن کی بائی لائن اور حاضری کا صرف 0-6 فیصد تھا۔
ٹی وی جرنلزم کے لحاظ سے55.6فیصد انگریزی نیوز اینکرز’اعلی ذات سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی سے کوئی اینکر نہیں تھا۔ انگریزی نیوز چینلز میں او بی سی کمیونٹی کے اینکرز کی نمائندگی11.1فیصد تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مطالعہ کیے گئے سات چینلز میں سے چار میں او بی سی کمیونٹی کا کوئی اینکر نہیں تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن پینلسٹس کو پروگراموں میں اپنے خیالات دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، ان میں بھی پسماندہ طبقات کے لوگوں کی نمائندگی کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،ہندی اور انگریزی میں پرائم ٹائم شوز کے تمام پینلسٹس میں سے 60 فیصد سے زیادہ کا تعلق اعلی ذات سے تھا۔ ہندی اور انگریزی میں مباحثوں میں شامل 5 فیصد سے بھی کم پینلسٹ ایس سی/ایس ٹی زمرے سے تھے۔

ڈیجیٹل میڈیا میں، انگریزیNewslaundry میں68.5فیصد بائی لائنزاونچی ذات کے صحافیوں نے چھاپی، جو کہ سب سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد فرسٹ پوسٹ (61 فیصد) اور اسکرول (54 فیصد) ہے۔
دی وائر کے لیے لکھے گئے تمام مضامین میں سے نصف اعلیٰ ذات کے صحافیوں نے لکھے تھے، جب کہ12.4فیصد او بی سی زمرے کے صحافیوں نے، 3.2فیصد ایس سی کمیونٹیز اور6فیصد ایس ٹی کمیونٹیز نے لکھے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موک نائک واحد ڈیجیٹل پلیٹ فارم تھا جہاں زیادہ تر مضامین ایس سی کمیونٹی کے صحافیوں نے لکھے تھے۔
رپورٹ کے لیے 9 ویب سائٹس کا سروے کیا گیا۔ ان میں ایسٹ پریزینڈ۔فرسٹ پوسٹ ۔نیوز لانڈری۔اسکرول۔دی وائر۔دی نیوز منٹ سوراجیہ،دی موک نائک او ردی کوئنٹ شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین