Saturday, July 27, 2024
homeتجزیہبی جے پی کی ہمدردی – پسماندہ مسلمانوں سےہی کیوں عام...

بی جے پی کی ہمدردی – پسماندہ مسلمانوں سےہی کیوں عام مسلمان سے کیوں نہیں!

تحریر : مسعودجاوید

مقتدرہ جماعت نے ٢٠٢٤ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ کیا اپوزیشن نے بھی کی ؟ اپوزیشن تو اپنے وجود کو بچانے میں لگا ہے ! زیادہ تر اپوزیشن پرائیوٹ لمیٹڈ Pvt.Ltd کمپنیوں کی طرح موروثی جائیداد پر قابض ہیں اس لئے عام آدمی کے مسائل سے کہیں زیادہ انہیں اپنا سرمایہ محفوظ کرنے کی فکر ہے۔

شیوسینا کا ٹھاکرے پریوار کے ہاتھ سے نکلنا اس کے وجود کا خاتمہ کا اعلان ہو سکتا ہے۔ شیو سینا کی صورتحال پر قیاس کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس، سپا، بسپا، راجد ، جے ایم ایم وغیرہ سب کا وجود خطرے میں ہے۔ اس لئے کہ ان سب میں آئیڈیالوجی سے کہیں زیادہ وراثت اہم ہے۔ غیر وارث اہلیت اور سینیئریٹی کے باوجود چوٹی کے عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتا ! ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں؛ کانگریس میں گاندھی پریوار، اترپردیش میں ملایم سنگھ یادو پریوار اور بہار میں لالو پرساد یادو پریوار کے ہونے اور نہ ہونے سے جب فرق ہی نہیں پڑتا، جب یہ فعال اپوزیشن کا فریضہ منصبی ادا کرنے سے بیشتر اوقات قاصر رہتے ہیں، جب ان کے خود کے معاملات انڈر اسکینر ہوں جب یہ خود سہمے ہوئے ہوں تو ان سے امید بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ عام آدمی کے مسائل پر زبان کھولیں گے بالخصوص پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے ان کے حق میں پارلیمنٹ و اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے اور/ یا سڑکوں پر مظاہرہ کریں گے۔‌

مسلمانوں نے بار بار انہیں اپنا سب کچھ سونپ کر دیکھ لیا اور سماجوادی کو یکمشت ووٹ کرنے کا واقعہ ابھی تازہ ہے۔اس کا صلہ کیا ملا ؟ یہی نا کہ مسلم ایشوز زبان پر لانے سے بھی گریز ! تو پھر کیوں نا بی جے پی کا لانچ کیا ہوا “پسماندہ مسلمانوں ” کو قریب کرنے کے نئے منصوبے کو ایک چانس دیا جائے۔‌ مسلمانوں نے بی جے پی کی مخالفت کرنے کی سپاری تو لی نہیں ہے۔ اگر یہ واقعی آزاد شہری ہیں تو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے دام فریب سے باہر نکلیں۔ آزادانہ فیصلہ خود کریں۔ اعلان کریں کہ بی جے پی ہمارے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ اب مزید ہمیں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ڈر دیکھا کر ہمیں اپنے چھتر چھایا میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا ڈر کتنا حقیقی ہے اور آپ کا چھتر چھایا کتنا پائدار کہ الیکشن ختم ہوتے ہی آپ تمام سیکولر اپوزیشن پارٹیاں سمٹ کر اپنے اپنے خول میں ہو لئے۔

لیکن بی جے پی بھی سیدھے سیدھے مسلمانوں کو قریب کرنے کی بات سے گریز کیوں کر رہی ہے ؟ ویسے بھی “پسماندہ” کہنے سے ٧٤ فیصد مسلم شامل ہوں گے تو ٢٦ فیصد کو کیوں چھوڑ رہی ہے؟ شاید اس خدشہ کے تحت کہ کہیں ایک مخصوص طبقہ ناراض نہ ہو جائے ! بالفاظ دیگر ” #اکثریت نوازی” !

یہی غلطی کانگریس اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں کرتی رہیں وہ اپنی آییڈیالوجی پر کاربند رہ کر بلا تفریق مذہب اور ذات پات ، کام کرنے کی بجائے ” #اقلیت نوازی” (براءے نام ہی سہی) کرتی رہی ۔ ۔۔ کچھ تو پارٹی لیڈران نے ایسی تشہیر کی اور کچھ بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیموں نے ” اقلیت نواز” کہہ کر بدنام کیا ۔‌

ذات برادری کی سیاست کا تجربہ کر کے دیکھ لیا گیا اسی طرح مذہب کی سیاست کا تجربہ کر کے دیکھا جا رہا ہے لیکن بالآخر “حقیقی سیکولر” سیاست ہی اس ملک عزیز کو راس آنے والی ہے۔ اس لئے بی جے پی کو چاہیے کہ ایک چانس لے ۔۔۔ نظریہ ہی نہیں بے لگام چھٹ بھیئے لیڈروں کو بھی کنٹرول کر کے ۔‌صرف پسماندہ مسلمانوں کو نہیں تمام مسلمانوں کو دعوت شرکت دے کر ، ان کے ذہنوں سے غلط فہمیوں کو دور کر کے ۔ اس لئے کہ آخری بار اتر پردیش میں ٹھوک بجا کر اکھلیش کی بھر پور تائید کر کے دیکھ لیا گیا اور اب مسلمانوں نے خوب اچھی طرح محسوس کر لیا ہے کہ نام نہاد سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو مجبور محض سمجھ رکھا ہے کہ ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سیکولر پارٹیوں کا یہ بھرم توڑ دیں اور اعلان کر دیں کہ اگر بی جے پی ہمیں احترام متبادل کے اصول کے تحت مدعو کرتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔بی جے پی کو بھی اب ٨٠ اور ٢٠ کے کھیل سے اوپر اٹھ کر شمولی پارٹی کا عملی ثبوت پیش کرنا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین