Monday, October 7, 2024
homeہندوستاناترپردیش میں اپنے گھر میں بھی باجماعت نماز پڑھنا جرم؟--ہندوتووادیوں کے سخت...

اترپردیش میں اپنے گھر میں بھی باجماعت نماز پڑھنا جرم؟–ہندوتووادیوں کے سخت اعتراض کے بعد مرادآباد کی پولیس نے ایف آئی آر درج کی

مرادآباد (ایجنسی) اترپردیش کے مراد آباد کے دولہے پور گاؤں میں باجماعت نماز ادا کرنے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ہونے اور ہندوتووادیوں کے سخت اعتراض کے بعد مرادآباد کی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔ٹائمزآف انڈیا کی خبر میں کہاگیا ہے کہ 26افراد پر ایف ای آر درج ہوی ہے ۔بتایا جاتا ہے اس گاؤں میں اجتماعی نماز کو لے کر گاؤں والوں نے اعتراض کیا تھا، اس کے باوجود مسلم کمیونٹی کے لوگ ایک گھر میں جمع ہوئے اور نماز ادا کی۔ کیس میں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا۔ اس معاملے میں اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے یوپی پولیس پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگایا ہے۔ اس معاملے میں، ہندو فریق کا الزام ہے کہ گزشتہ 2-3 مہینوں سے مسلم سماج کے لوگوں کے ذریعہ باجماعت نماز کی ایک نئی روایت شروع کی ہے۔ کسی کے گھر جمع ہو کر اجتماعی نماز پڑھ رہے ہیں۔ ہندو فریق کے لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ گاؤں میں ایک نیا رواج شروع کیا جا رہا ہے، جس کے خلاف ہم نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ دولھے پور گاؤں میں نہ کوئی مندر ہے نہ مسجد۔معاملہ کی تحقیقات جاری ہے جن ستا کے مطابق ہندو فریق نے کہا کہ ہمارے کئی بار انکار کے باوجود مسلم معاشرے نے باجماعت نماز ادا کرنا بند نہیں کیا۔ چندر پال نامی شکایت کنندہ نے بتایا، ’’پہلے اجتماعی نماز گاؤں کے شاہد محمد نور میں ادا کی گئی، اس کے بعد انور میں اجتماعی نماز ادا کی گئی۔ ہمارے پاس انور کی اجتماعی نماز کی ویڈیو بھی تھی جس کی بنیاد پر ہم نے شکایت درج کرائی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم خود دوسرے گاؤں کے مندر میں پوجا کرنے جاتے ہیں جو ہمارے گاؤں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

دوسری جانب مسلم فریق نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کافی عرصے سے باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہندوؤں کی طرف سے اعتراضات اٹھانے کے بعد انہوں نے 3 جون سے باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا ہے۔ مسلم فریق کے لوگ یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ وائرل ہونے والا ویڈیو 3 جون کا ہے۔ مسلم فریق کی جانب سے واحد علی نے میڈیا کو بتایا کہ ‘میرے والد 1980 سے 1996 تک اس گاؤں کے سربراہ رہے، ان کے دور میں بھی ایسا ہی جھگڑا ہوا جیسا کہ آج ہو رہا ہے۔ پھر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق تم اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھو اور اپنی عبادت کرو۔ مندر اور مسجد بنانے سے پہلے پورے گاؤں میں میٹنگ کرنی ہوگی اور ایک دوسرے سے رضامندی لینی ہوگی۔ تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین