Wednesday, December 4, 2024
homeاہم خبریںنیوز کلک کا دفتر سیل۔نیوز ویب سائٹ سے وابستہ صحافیوں کے گھروں...

نیوز کلک کا دفتر سیل۔نیوز ویب سائٹ سے وابستہ صحافیوں کے گھروں پر چھاپے

نئی دہلی(ایجنسی)

آج صبح سے ہی دہلی پولیس کے ذریعہ نیوز کلک کیس میں کئی ٹھکانوں پر چھاپہ ماری کی گئی۔ کچھ مقامات پر چھاپہ ماری کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اس درمیان خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ دہلی پولیس اسپیشل سیل کے افسران نے دہلی میں نیوز کلک کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل سے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں افسران کے ذریعہ دفتر پر تالا لگاتے اور اس سیل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس درمیان نیوز کلک کے دفتر اور اس سے جڑے صحافیوں و رائٹرس کی رہائش پر ہوئی چھاپہ ماری کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ پریس کلب آف انڈیا اور ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا جیسے اداروں نے بھی حکومت کے ذریعہ کی گئی اس کارروائی کو اظہارِ رائے کی آزادی اور میڈیا پر حملہ قرار دیا ہے۔ لوک سبھا انتخاب کے پیش نظر ایک پلیٹ فارم پر آئی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی نیوز کلک کے خلاف ہو رہی کارروائی پر بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیاں بی جے پی حکومت کے ذریعہ میڈیا پر تازہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ ہم پوری طرح میڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئینی طور پر اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘

انڈیا اتحاد نے اپنے بیان میں مرکزی حکومت کی سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ’’گزشتہ 9 سالوں میں بی جے پی حکومت نے برطانوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی)، نیوز لانڈری، دینک بھاسکر، بھارت سماچار، کشمیر والا، دی وائر وغیرہ کو دبانے کے لیے تحقیقاتی ایجنسیوں کو تعینات کر کے قصداً میڈیا کو پریشان کیا ہے اور تازہ معاملہ نیوز کلک کے صحافیوں پر کارروائی ہے۔‘‘ مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’بی جے پی حکومت کی کارروائی ہمیشہ صرف ان میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف ہوتے ہیں جو اقتدار سے سچ بولتے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی حکومت ایسے صحافیوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی جو ملک میں نفرت اور زہر انگیزی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس وقت بی جے پی مفلوج نظر آنے لگتی ہے۔ بی جے پی کو چاہیے کہ وہ قومی مفاد میں عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرے اور اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا پر حملے بند کرے۔‘‘

متعلقہ خبریں

تازہ ترین