Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںوزیر اعظم اقتصادی ومشاورتی کونسل کی مسلم آبادی پر تازہ رپورٹ نئی...

وزیر اعظم اقتصادی ومشاورتی کونسل کی مسلم آبادی پر تازہ رپورٹ نئی بوتل میں بدبودار شراب

ایک ایسے وقت میں جب انتخابی مہم اپنے شباب پر ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے ملک میں آبادی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرکے بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا ہے۔مودی حامی میڈیا میں سرخیوں کا انبار ہے۔یہ سمجھ سے باہر ہے کہ انتخابی موسم کے دوران اچانک اس رپورٹ کو منظر عام پرلانے کی ضرورت کیا تھی ؟۔جب کہ رپورٹ میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔وہی پرانی باتیں اور پرانے دعوے اور بی جے پی لیڈروں کے بیانات جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔

نور اللہ جاوید

لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے ملک میں آبادی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرکے بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا ہے۔مودی حامی میڈیا میں سرخیوں کا انبار ہے۔یہ سمجھ سے باہر ہے کہ انتخابی موسم کے دوران اچانک اس رپورٹ کو منظر عام پرلانے کی ضرورت کیا تھی ۔

زیادہ تر نیوز چینلوں اور نیوز ویب سائٹ میںرپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا حصہ 1950 میں 9.84فیصدسے بڑھ کر 2015 میں14.09ہو گیا ہے ۔43.15فیصد اضافہ ہے۔ دوسری طرف، ہندوستان کی ہندو آبادی کا حصہ اس مدت کے دوران84.64فیصد سے کم ہو کر78.06فیصد ہوگئی ہے۔یعنی 7.82فیصد آبادی میں کمی آئی ہے۔

مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر نے دعویٰ کیا کہ ’’خاص کمیونٹی‘‘(مسلمانوں) کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ’ہندوستان کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے‘۔ انہوں نے اس مطالعہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس دعوے سے بھی جوڑا کہ کانگریس مذہب کی بنیاد پر تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن متعارف کرانا چاہتی ہے۔

چندر شیکھر کا پہلا دعویٰ گمراہ کن ہے جبکہ دوسرا سراسر غلط ہے۔ مذہب کے لحاظ سے آبادی کے حصص میں تبدیلی کے بارے میں مطالعہ کے نتائج کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ ایک ایسے رجحان کی تائید کرتی ہے جو مردم شماری میں اس کی تائید کی گئی ہے۔مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1951 کے بعد سے ملک کی آبادی کی مذہبی ساخت میں صرف معمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔ درحقیقت،گزشتہ تین دہائیوں سے مسلمانوں میں شرح پیدائش میں کمی آ ئی ہے۔

دوسرا دعویٰ کہ کانگریس مذہب کی بنیاد پر کوٹہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔کانگریس کے انتخابی منشور کا مطالعہ کرنے والا ہر ذی عقل اس دعوے کو مسترد کرچکا ہے اور کانگریس نے کہیں پر بھی مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات نہیں کی ہے۔وزیر اعظم مودی سے لے کر بی جے پی کے تمام لیڈران بشمول بی جے پی کا میڈیا سیل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کانگریس مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے حق میں ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کانگریس کی دہائیوں کی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔یہ سوال کافی اہم ہے کہ جب 2021میں مردم شمارہی نہیں ہوئی ہے تو پھر اس مطالعے کی بنیاد کیا ہے۔ہندوستان کی مذہبی ساخت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

اس مطالعے کا تعارف وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی رکن شمیکا روی، اور دو دیگر کی شریک مصنفین نے کراتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مطالعہ آبادیاتی رجحانات کا تجزیہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا ۔کیوں کہ ملک میں معاشی تفاوت بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ سے حکمرانی دبائو بڑھ گیا اور ریاستوں کے درمیان تنازعات پیدا ہورہے ہیں ۔جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن ممالک میں مذہبی آبادی میں تبدیلی کے باب میں وزیر اعظم کی مشاورتی کونسل نے تجزیہ پیش کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ درج کیا گیا ہے اور ہندئوںکی آبادی میں کمی کو نوٹ کی گئی ہے۔
اس نئے مطالعے میں کوئی نئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ نہ ہی وہ اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ہندوستان کی آبادی میں نمایاں تبدیلی آرہی ہے۔مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1951 میں ہندوستان کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ9 .8فیصد تھا جو کہ 2011میں 14.2فیصد ہوگئی ۔ اسی عرصے میں ہندوؤں کا حصہ 84.1فیصد سے کم ہو کر79.8فیصد رہ گیا۔اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ اس نئے مطالعے میں گزشتہ مردم شماری سے الگ کوئی نئی بات نہیں کہی گئی ہے۔

مزید برآں وزیراعظم کی مشاورتی کونسل کے مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اکثریتی مذہبی فرقے کی آبادی میں اوسطاً 22فیصد کمی ہوئی ہے۔جب کہ بھارت میں ہندئوں کی آبادی جو ملک کا اکثریتی طبقہ ہے میں محض 7.82فیصد کمی آئی ہے جو عالمی اوسط کے اعتبار نمایاں طور پر کم ہے۔

امیگریشن اور تبدیلی مذہب کے نام پر پروپیگنڈہ

مرکزی وزیر چندر شیکھر نے اس رپورٹ کے بہانے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی وجوہات پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے میں غیر قانونی امیگریشن اور مذہبی تبدیلی کا رول کیا ہے؟ وزیراعظم ترقیاتی اقتصادی کونسل کے اس مطالعے میں مرکزی وزیر کے سوال کا براہ راست کوئی قطعی جواب نہیں ہے۔ آبادی کی مذہبی ساخت میں تبدیلی کی وجوہات کے طور پر ’’ہجرت، تبدیلی، شرح پیدائش میں فرق اور علاقائی حدود میں فرق جیسے عوامل کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم آبادی میں اضافے اور کمی کے وجوہات پر توجہ دینے کے بجائے اقلیتی آبادی کے مجموعی ترقی اور فلاح بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر کے ذریعہ 2021 میں جاری کردہ ایک مطالعے میں واضح کیا گیا تھا کہ شرح پیدائش ہندوستان میں آبادی کی تبدیلی کا بنیادی محرک ہے۔ مسلمانوں میں زرخیزی کی شرح اب بھی دوسرے طبقے کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔ لیکن 2022 میں جاری ہونے والے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 میں کہا گیا کہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تمام مذہبی برادریوں میں مسلمانوں میں شرح پیدائش میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے۔پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا نے جمعرات کو نوٹ کیا کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش 1981-1991میں 32.9فیصد تھی جو 2001-2011میں کم ہوکر 24.6فیصد ہوگئی ۔مسلمانوں میں شرح پیدا ئش میں کمی ہندئوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔کیوں کہ اسی مدت میں ہندئوں میں شرح پیدائش 22.7فیصد سے کم 16.8فیصد ہوگیا ۔

2001 سے 2011 کے درمیان ہندوؤں کی اوسط سالانہ شرح 1.4فیصد رہی۔ مسلمانوں میں یہ شرح 2.1 فیصد اگر ہم فرض کریں کہ دونوں کمیونٹیز کی آبادی میں اضافہ اسی شرح سےہوتی ہے تو مسلمانوں کی آبادی تقریباً 200 سال بعد2220 میں ہندئوں کے برابرہوجائے گی۔ ترقی کے ان شرحوں اگر تسلیم کرلیا جائے تو جس وقت مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کے برابر یا پھر زائد ہوگی، اس وقت ہندوستان کی آبادی تقریبا 3,264کروڑ ہوگی۔ یعنی ہندوستان کی مجموعی آبادی اس وقت کی عالمی آبادی سے پانچ گنازیادہ ہوگی ۔ ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے۔سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگلے پچاس سالوں کے بعد مسلمانوں کی آبادی 17یا پھر 21فیصد کے درمیان مستحکم ہوجائے گی۔کیوں کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش میں سب زیادہ کمی کا رجحان ہے۔کیوں کہ مسلمانوں میں آبادی میں بے تحاشا اضافہ سنگھ پریوار کا سب سے مقبول تصور رہا ہے ۔اس لئے وقتا فوقتا اس طرح کی رپورٹیں لاکر ہندئوں کو خوف زدہ اور بھرم کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آبادی میں اضافے کا تعلق مذہب نہیںبلکہ معیشت اہم عوامل میں سے ایک

لبرل اور بائیں بازو کے دانشور مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی اعلیٰ شرح کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی انتہائی خراب معاشی صورت حا ل کو قرار دیتے ہیں۔ جب کہ دائیں بازوں اور ہندتوکے حامل دانشوریہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی وجہ مذہبی عوامل کافرما ہے۔ معاشی محرکات بالکل نہیں ہے۔اعداد و شمار کو آپ کو نظریہ اور زاویہ سے دیکھتے ہیں وہ اہم ہے۔کیوں کہ بہت سے دیگر پسماندہ آبادی والے گروہوں میں شرح پیدائش مسلمانوں سے زیادہ ہے۔

مزید برآں چونکہ مسلم نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات آبادی کے دیگر حصوں کے مقابلے کم ہے، اس لیےمسلمانوں میں شرح پیدائش زائد ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں شرح پیدائش ہندوؤں اور عیسائیوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ لیکن جب ہم آبادی کو سماجی و اقتصادی طور پر تقسیم کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں شرح پیدائش ہندئوں اور دیگر طبقات کے غیر تعلیم یافتہ کے مقابلے انتہائی کم ہے۔ واضح طور پر معاشی اور تعلیمی عوامل یہاں اہم کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عالمی منظرنامہ بھی دائیں بازوںکے دانشوروں کے دلائل کو غلط ثابت کرتےہیں۔ مثال کے طور پر ایران نے 2002 میںہی اپنی آبادی پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا ۔جب کہ بھارت میں نے 2020میں شرح نمو میں برابری حاصل کی ہے۔ 90 فیصد مسلم آبادی والے ملک بنگلہ دیش میںکل زرخیزی کی شرح (TFR)مجموعی طور پر کم ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ہندوؤں سے بھی کم ہے۔

جہاں تک تبدیلی مذہب کا تعلق ہے، پیو ریسرچ سینٹر کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ 98فیصد ہندوستانی بالغوں نےکہا کہ وہ اپنے آباو اجداد کے مذہب پر ہی کاربند ہےاور اسی مذہبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے میں تبدیلی مذہب کا کوئی رول نہیں ہے۔دریں اثنا ہندوستان میں رہنے والے 99 فیصد سے زیادہ افراد ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔یعنی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ میں دراندازی کےرول کے دعوے کو بھی مسترد کردتا ہے۔

دائیں بازوں اور بی جے پی لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ بھارت کو بنگلہ دیش سے آنے والے دراندازوں سے بڑا خطرہ ہے۔یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آسام اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کی بڑی آبادی میں امیگریشن اور غیر قانونی تارکین وطن کا اہم رول ہے۔مگر حکومت کے اعداد و شمار اس کی تائید نہیں کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر، آسام کی مسلم آبادی اسی شرح سے بڑھی جس طرح 1991 اور 2001 کے درمیان ملک کے دیگر علاقوں کی مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔مغربی بنگال کی مسلم آبادی میں سست رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔چناں چہ یہ دعویٰ ہی غلط ہے آسام اور مغربی بنگال کی مسلم آبادیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین