Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںدمدم سنٹرل جیل میں ایک اور مسلم قیدی کی مشتبہ موت؟

دمدم سنٹرل جیل میں ایک اور مسلم قیدی کی مشتبہ موت؟

دمدم سنٹرل جیل میں صابر علی کی مشتبہ موت کے بعد پولس اور جیل انتظامیہ سوالوں کی زد میں !چند گھنٹے سے قبل تک صابر علی صحت مند تھے مگر اچانک موت کی خبر آئی۔گزشتہ چند مہینوں میں مختلف جیلوں میںکئی مسلم نوجوان قیدیوں کی موت سامنے آئی۔مہلوک قیدیوں کی موت اورگرفتاری کی نوعیت یکساں۔آخر بنگال کے جیل مسلم قیدیوں کیلئے قبرستان کیوں بن رہے ہیں

کلکتہ :انصاف نیوز آن لائن

گزشتہ 6مہینوں میں بنگال کے مختلف جیلوں میں دس سے زاید مسلم قیدیوں کی موت کا معاملہ سامنے آیا ہے ؟ ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ آخر ریاست کی جیلیں مسلم قیدیوں کےلئے قبرستان کیوں بن رہے ہیں؟ دودن قبل دمدم کے سنٹرل جیل میں باراسات کے قاضی پاڑہ کے رہنے والے صابر علی کی مشتبہ حالت میں موت نے یہ سوال گہرا کردیا ہے۔جمعرات کو سخت احتجاج و ناراضگی کے بعد صابر علی کی تدفین کردی گئی ہے۔مگر جن حالات میں صابر علی کی موت ہوئی ہے اور جن وجوہات کی بنیاد پر صابر علی کو گرفتار کیا گیا تھا ۔وہ تمام مراحل سوالوں کی زد میں ہے۔ جیلوں میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں ہے مگر جس طریقے سے پے درپے مسلم قیدیوں کی موت ہورہی ہے اس پر سوال اٹھنا لازمی ہے ؟ صابر علی کلکتہ شہر سے متصل باراسات کے کاضی پاڑہ علاقے میں سماجی کارکن کے طور پر ابھر رہے تھے، وہ گزشتہ کئی سالوں سے ڈرگس اور شراب کے خلاف مہم چلارہے تھے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپریل 2022میں باراسات پولس نے صابر علی اور اس کے دوست کو ڈرگس لے جانے کے معاملے میں گرفتار کرلیا، اپریل سے ہی وہ حراست میں ہے۔صابرعلی کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ سوموار کی رات جیل سے ہی صابر علی نے فون پر بات کی اور بتایا کہ کسی قیدی کے پاس موبائل فون ہے اس سے لے کر یہ کال کررہا ہے۔اس نے سردی کے سامان لانے کی فرمائش کی اور بتایا کہ وہ مکمل طور پر صحت مند ہے مگر منگل کی صبح کو پولس اسٹیشن سے فون آیا کہ آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال کلکتہ میںصابر علی کی موت ہوگئی ہے۔صابر علی کے بھائی بتاتے ہیں کہ جب وہ آرجی کار اسپتال پہنچے تو بھائی کے جسم پر کئی نشانات تھے۔تلوے کا نچلا حصہ کالا تھا اس نے اس سے بابت ڈاکٹروں نے سوال کیا تو ڈاکٹروںنے بتایاکہ موت کے بعدجسم کے کئی حصے کالے ہوجاتے ہیں ؟۔اس نے ویڈیو گرافی کرنے کی کوشش کی تو پولس نے روک دیا۔جب کہ تلوے کے نچلے حصہ میں کئی نشانات تھے ۔صابر علی کی موت کے بعد قاضی پاڑہ کے علاقے کے عوام سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ ، کئی گھنٹے تک سڑک کو جام رکھا۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پہلے صابر علی کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا اوراب اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ صابر علی کی موت کے پیچھے علاقے کے مافیا، ڈرگس سپلائراوران کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے پولس افسران کا ہاتھ ہے۔گھروالوں کا الزام ہے کہ جیل انتظامیہ نے رپورٹ دی ہے کہ صابر علی کی نرو کے ڈائون ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔جیل میںہی اس کی طبیعت بگڑ گئی تھی ، اسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کی موت ہوگئی ہے۔مگر پولس کی اس تھیوری پر گھروالوںکو یقین نہیں ہے۔ اس سے قبل صابر علی کو نرو ڈائون ہونے کی کوئی شکایت نہیں تھی اور نہ ہی اس نے اس سے متعلق گھروالوں سے کبھی بات کی تھی۔اسپتال انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے اس کا علاج چل رہا تھا ۔مگر سوال یہ ہے کہ اس کا میڈیکل ہسٹری کہا ں ہے اور اس کا علاج کس ڈاکٹر سے چل رہا تھا؟۔
صابر علی کی گرفتاری اور موت سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟

باراسات کا یہ علاقہ فرقہ واریت کے اعتبار سے حساس علاقوں میں سے ایک ہے، گزشتہ ایک دہائیوں کے درمیان یہاں کے مختلف علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوچکے ہیں 2008سے ہی وقفے وقفے ہر سال کچھ نہ ہوتے رہے ہیں ۔دوسرے یہ اس علاقے میں ڈرگس اسمگلنگ کی شکایتیں بھی آتی رہی ہیں ، بنگلہ دیش کی سرحد قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں یہ کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ڈرگس مافیا سے متعلق بتایاجاتا ہے کہ وہ کافی طاقتورہیں ۔صابر علی گزشتہ کئی سالوں سے ڈرگس کے خلاف مہم چلارہے تھے اور پولس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے رہے ہیں اور اس کی وجہ سے صابرعلی طاقتور مافیائوں کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا تھا۔دوسرے یہ مافیا ئوں کے پیچھے ہمیشہ چند سینئر پولس افسران ہوتے ہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ صابر علی کو متعدد مرتبہ جھوٹے جھوٹے الزامات میںگرفتار کیا جاتارہا ہے۔گائوں والے بتاتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک مسلم آفیسر سی آئی ڈی میںتھے۔انہوں نے کئی مرتبہ مداخلت کرکے صابر علی کو جھوٹے مقدمےسے نجات دلائی تھی۔مگر اب ان کے انتقال کے بعد صابر علی کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔
جانچ آفیسر نے صابرعلی اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد جورپورٹ پیش کی ہے وہ خود صابر علی کی گرفتاری کو مشکوک بناتی ہے اور اہل خانہ اورعلاقے کے لوگوں کے دعویٰ کو سچ ثابت کرتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صابرعلی اور اس کے ساتھی کی گرفتاری کے وقت جو ڈرگس برآمد کیا گیا ہے اس کا پولس کے پاس کوئی عینی شاہد نہیں ہے ۔دوسرے یہ کہ تلاشی کے وقت مجسٹریٹ یا پھر اس کے نمائندے کا ہونا ضروری ہے مگر یہاں تلاشی کارروائی کے وقت نہ مجسٹریٹ تھا اور نہ کوئی ان کا نمائندہ ۔جب کہ صابر علی نے اپنی گرفتاری سے محض تین دن قبل ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولس میںعلاقے میں ڈرگس کی سپلائی کے خلاف میمورنڈم دیا تھا، گائوں والوں کے ساتھ مل کر مہم چلانے کا منصوبہ بنارہا تھا۔اگر صابر علی خود ڈرگس کے کاروبار میں ملوث تھا تو پھر اس کو ڈرگس کے خلاف شدت کے ساتھ مہم چلانے کی ضرورت کیوں تھی ؟کیا کوئی اپنے خلاف پولس کو میمورنڈم دے گا۔صابر علی کا گھر انتہائی بوسیدہ اور خراب حالت میں ہے اگر ڈرگس کے دھندے کا حصہ ہوتا تو اس کی مالی حالت اس قدر خستہ کیوں ہے؟۔

باراسات اور دے گنگا میں 2010سے ہی مختلف اوقات میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں ،سب سے پہلے مبینہ طورپرقرآن کریم کے صفحات کے جلانے کی خبر کے بعد فرقہ اورانہ کشیدگی پیدا ہوگئی ، اس کے بعد مبینہ طور پر مسجد پر پتھرائو کے واقعے کے بعد دونو ںفرقے آمنے سامنے ہوگئے ، 2017میں مسجد کے امام پر حملہ کرنے کے بعد حالات کشیدہ ہوئےاور اس کے بعد آگ زنی کے واقعات رونماہوئے ۔31دسمبر 2013کو باراسات کے اسی علاقے میں فرقہ وارانہ حالات کشیدہ ہوگیااس واقعے میں تین افراد کی موت ہوگئی ۔سماجی کارکن صابر غفاربتاتے ہیں کہ باراسات جو کلکتہ شہر سے محض 27کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ۔یہاں مسلسل مسلم دوکانداروںکو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔حالیہ برسوں میں کئی مسلم دوکاندار یہاں سے منتقل ہوئے ہیں ۔مہلوک صابر علی ان لوگوں میں شامل تھے جو مسلم دوکانداروں کی حمایت میں آواز بلند کرتے تھے ۔ا س لئے اس واقعے کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔صابر علی کن لوگوں کے نشانے پر تھے اور ان کو پھنسانے کے پیچھے پیچھے کیا کیا عوامل کارفرما تھے؟۔

صابر علی کی اہلیہ اپنی بیٹی کے ساتھ

اس سال فروری میں طلبا لیڈراور سماجی کارکن انیس خان کی پولس کے ہاتھوں موت اور دو ہفتے قبل بوگتوئی قتل عام کے ملزم للن شیخ کی سی بی آئی حراست میں موت کے واقعے کو درکنار کردیا جائے توبھی گزشتہ چند مہینوں میں مغربی بنگال کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی موت کے مسلسل واقعات رونماہورہے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر قیدیوں سے متعلق اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں پولس نے جان بوجھ کر پھنسایا تھا۔اسی سال اپریل میں اسی دمدم جیل میں ایک مسلم قیدی کی مشتبہ حالت میں موت ہوگئی تھی ۔30سالہ قطب الدین کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر سبزی فروش تھے، پولس ان سے ہفتہ مانگتی تھی جب انہوں نے دینے میں لیت و لعل سے کام لیا تو انہیں اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا اور پہلے پولس حراست میں مارپیٹ کی گلی اور جیل بھیج دیا گیا وہاں بھی ان کے ساتھ مسلسل مارپیٹ کی گئی ۔اس کے نتیجے میں میرے شوہر کی موت ہوئی ۔اسی سال اگست میں جنوبی 24پرگنہ کے برئی پور جیل میں اگست کے آخری ہفتے میں دس دن کے اندر چار مسلم قیدیوں کی موت کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ان چاروں مسلم نوجوان قیدیوں کو یک بعد دیگرے ایک ہی نوعیت کے مقدمات ’’ڈکیتی کی سازش ‘‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور موت کی نوعیت بھی یکساں تھی ۔یعنی جیل میں اچانک بیمار ہوگئے اور اسپتال پہنچنے کے بعد ڈاکٹروں نے مردہ قراردیدیا ۔ایک ہفتے میں ایک ہی جیل میں چار مسلم قیدیوں کی یک بعد دیگرے موت کی خبر عام ہونے کے بعد ضلع انتظامیہ نے حالات کوبگڑنے سےبچنے کے لئے فوری طور پر اس واقعے کی سی آئی ڈی جانچ کی ہدایت دی تھی مگر چار مہینے گزر گئے ہیں اب تک سی آئی ڈی جانچ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

مغربی بنگال جہاں مسلمانوں کی آبادی 28فیصد ہے ۔یہاں کی جیلوں میں سب سے زیادہ مسلم قیدیوں کی تعداد44فیصد ہے۔شمالی 24پرگنہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور آئی ایس ایف سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ ضمیر حسن بتاتے ہیں کہ جنوبی 24پرگنہ اور شمالی 24پرگنہ میں حکمراں جماعت کی تابعداری سے انکار کرنے والوں کی اندھا دھند گرفتاری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔مختلف جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2021کے اسمبلی انتخابات میں کے بعد ان دونوں ضلع میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر سروے کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کس طرح اندھا دھند گرفتاریاں ہوئی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی لڑنے والا نہیں ہے ۔صابر علی کی موت کے بعد اہل خانہ خوف زدہ ہیں، صابر علی کے والد جاوید بتاتے ہیں کہ ان میں اپنے بیٹے کے انصاف کےلئے جدو جہد کرنے کا حوصلہ نہیں ہے ۔وہ اپنے دیگر بچوں کو کھونا نہیں چاہتی ہے۔ہمارے پاس طاقتوروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ہم اس جنگ کو ہاررہے ہیں کیوں کہ یہاں کمزوروں کو سننے والا نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین