Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالممسلم حکمرانوں کے عہد میں مندر توڑے جانے کی حقیقت

مسلم حکمرانوں کے عہد میں مندر توڑے جانے کی حقیقت

پروفیسر محمد سجاد

بھارت میں مسلم حکمرانوں کے عہد میں مندر توڑنے کے سوال پر طویل مدت سے تاریخی تنازعہ چلا آرہا ہے۔ امریکہ کے ایریزونا یونی ورسٹی سے منسلک معروف تاریخ داں رچرڈ ایٹن نے سنہ 2004ء میں ایک کتاب شائع کی، جو اکتوبر 1999 ء کے آکسفورڈ یو نی ورسٹی کے ان کے ایک خطبہ (مضمون اشاعت 2000ء) کی توسیعی شکل ہے۔
رچرڈ ایٹن کی دو کتابیں بہت مقبول ہوئی تھیں۔ پہلی کتاب بیجاپور (دکن) کے تیرہویں سے سترہویں صدی کے صوفیاء کے سماجی کردار پر تھی، (بعد میں تیرہویں سے اٹھارہویں صدی کے دکن کی سماجی تاریخ پر بھی ایک کتاب شائع کی) ۔
ان کی دوسری معروف کتاب کا موضوع تھا بنگال میں اسلام کی آمد اور توسیع (تیرہویں سے اٹھارہویں صدی)۔
کچھ برس قبل انہوں نے دسویں صدی سے اٹھارہویں صدی کے بھارت کی تاریخ پر ایک عمدہ و مقبول عام ٹکسٹ بک بھی شائع کیا ہے۔ اس نوعیت کے ٹکسٹ بک کی، انڈر گریجوئیٹ طلبا و اساتذہ کو، اشد ضرورت تھی۔
بہر کیف، اس مخصوص فیس بک پوسٹ میں مندروں کے مسمار کئے جانے کا جو تنازعہ ہے، اس مضمون کا خلاصہ یہاں اردو میں پیش کیا جاتا ہے [اس موضوع پر ایٹن کا مفصل انٹرویو اسکرول (نومبر 20، 2015) اور فرنٹ لائن (دسمبر 22، 2000) میں شائع ہو چکا ہے]۔

بابری مسجد کے انہدام 1992ء کے بعد سے یہ بحث زیادہ شدید ہو چلی۔ بھگوائ نظریہ والے سیتا رام گوئل نے 1990 ء میں ایک کتاب شائع کر کے یہ بتایا کہ 80 ہزار سے زائد مندروں کو مسلم حکمرانوں نے مسمار کیا تھا۔ ایٹن نے 80 مندروں کو توڑے جانے کے شواہد پائے، اور تعداد سے قطع نظر، عہد وسطی میں عبادت گاہیں توڑنے اور بنوانے اور عبادت گاہوں کو سرکاری تحفظ دئیے جانے کی سیاست پر سیر حاصل بحث کیا ہے۔
برطانوی عہد میں سرکاری طور پر تراجم کے معرفت 1849 ء میں ہینری ایلئیٹ نے جان ڈاؤسن کی مدد سے آٹھ جلدوں میں، ہسٹری آف انڈیا ایز ٹولڈ بائ اٹز اون ہسٹوریئنس، شائع کروایا۔ ان لوگوں نے مسلم حکمرانوں کے مقابلے میں ، برطانوی عہد کو بہتر اور زیادہ انصاف پسند حکومت بتانے کی غرض سے ما قبل برطانوی عہد، یعنی، بھارت کے مسلم حکمرانوں کے عہد کو ہندوؤں کا مخالف بتانے کی خاطر، از حد مبالغہ آمیز داستانیں گڑھنا شروع کر دیں، اور اس طرح سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانا شروع کر دیا۔
—-
محمد حسین آزاد (1832-1910) نے اپنی کتاب، تاریخ ہندوستان، میں، انگریزوں کی اس فرقہ پرستانہ تاریخ نویسی کو بے نقاب کیا تھا۔ پروفیسر اقتدار عالم خاں (1991) نے، علی گڑھ تحریک اور تاریخ نگاری کے حوالے سے، کہا تھا کہ، “ہندوستانی تاریخ کی فرقہ وارانہ تعبیر محض انگریزی تعلیم کے نصاب میں شامل درسی کتابوں کی دین ہے”۔
پروفیسر محمد حبیب (1895-1971) نے ایلئیٹ اور ڈاؤسن کے تعارف کی تنقید میں ایک طویل مقالہ شائع کیا تھا۔ بہت بعد میں دار المصنفین شبلی اکیڈمی نے تاریخ دانوں کی ایک کمیٹی بنائ تھی جن کے ذمہ ایسی تاریخ لکھنا تھی کہ نفرت آمیز تاریخ نویسی کے زہر کا تریاق فراہم کیا جا سکے۔ گرچہ وہ کام بہ خوبی انجام نہ دیا جا سکا، لیکن سید صباح الدین عبدالرحمان (1911-1987) نے بھارت کے عہد وسطی کی تاریخ کے تعلق سے، “بزم سیریز” کی کتابیں لکھ کر ایک بڑا کام انجام دیا۔ ان میں سے ایک کتاب (1958)، جو عہد وسطی کے حکمرانوں کی مذہبی رواداری سے تعلق رکھتی ہے، کا ایک مختصر مگر جامع پیش لفظ، آں وقتی وزیر خارجہ، ڈاکٹر سید محمود (1889-1971) نے نہایت ہی عمدہ و سلیس اردو نثر میں لکھا ہے۔
—–
رچرڈ ایٹن نے، اپنے زیر بحث مضمون کی ابتدا میں ہی ایک مخصوص مثال سے یہ واضح کر دیا ہے کہ، بھگوائ مصنف، سیتا رام گوئل، و دیگر ایسے نفرت آمیز تاریخ نگاری کرنے والوں نے، اپنے موقف کے لئے جن فارسی مآخذ پر انحصار کیا ہے، وہ مآخذات از خود، بے حد مشکوک ہیں۔ مثلا، مالوہ (مدھیہ پردیش) ریاست کی راجدھانی، دھار، کے ایک مندر میں 1455 ء کا ایک فارسی انسکرپشن ہےجس میں پرمارا شاہی خاندان کے راجہ بھوج (1010-1053) کے عہد میں کسی عبداللہ شاہ چانگل کے ذریعہ توڑے گئے مندر اور راجہ بھوج کے مسلمان بن جانے کا ذکر ہے۔ چانگل کے مزار کا بھی ذکر ہے۔ اس انسکرپشن کے دعوؤں کا بہ غور مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ راجہ بھوج کے قبل بھی وہاں کچھ مسلمان تھے، جو کسی طرح ثابت نہیں ہو پاتا ہے۔ دوسرا عہد، مکہ سے آئے چانگل کا ہے، وہ بھی کسی طور ثابت نہیں ہے۔ اور تیسرا عہد محمود خلجی کا ہے، جس نے چانگل کے مزار کی تعمیر نو کروائ۔
یہ انسکرپشن، اس مخصوص واقعہ کی چار صدیاں گزر جانے کے بعد، 1455ء کی ہے ۔ اس انسکرپشن میں، کنورزن، شہادت، صوفی مزار کی حکمرانہ سر پرستی، جیسے سیاسی نوعیت کے معاملات پر باریکی سے غور کیا جانا چاہئے۔ لہذا اختراعیہ اور من گڑھنت تاریخ نویسی کی اس سیاست کو سمجھتے ہوئے مسلم حکمرانوں کی جانب سے لکھوائ گئ عبارتوں کو بھی بہت احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سنہ 986 ء کے بعد سلطان سبکتگین نے، کابل سے پنجاب کے درمیان کے ہندو شاہی حکمرانوں کے علاقوں میں، کافی لوٹ کھسوٹ مچائ تھی۔ سبکتگین کا سکریٹری، ابو نصر عطبی بھی اس کا اعتراف کرتا ہے۔ سیاسی فتح سے کنورزن، اور کنورزن کے بیانیہ سے سیاسی فتح پر اسلامی مہر و تصدیق، کی یہ سیاست بھی خوب ہے، جو عطبی کے بعد کی تحریروں میں خوب خوب ملتا ہے۔ سبکتگین کے پسر محمود غزنوی نے مادی اعتبار سے امیر مندروں کی دولت لوٹ کر کابل لے جانے کا سلسلہ رکھا۔ ایران و شمالی ہند کے مال غنیمت سے ہی غزنوی فوجیں توانا ہوتی رہیں۔ سلجوقیوں اور غوریوں نے، غزنویوں کو، سنٹرل ایشیا سے ملنے والے جنگجوؤں کی سپلائی لائن ہی بند کر دیا۔
مشرقی ایران کے تاجک حکمراں کی شاخ، غوریوں، اور ان کے غلام، ترکوں کی حکومت (دہلی سلطنت، 1206-1526) نے شمالی ہند کی سیاست میں ایک نیا نظام قائم کر دیا، جو حملہ آور نہیں رہے، بلکہ، باضابطہ جم گئے۔ ان حکمرانوں نے، صوفی اور محدود سطح پر اور محتاط طور پر مندروں کو مسمار کرنے کی ایک نئ سیاست شروع کر دی۔
——
سنہ 1350 ء میں بہمنی سلطنت کے ملک الشعرا، عبد الملک اسامی، نے ریاستوں کی طاقت کے پیچھے صوفیاء کی غیبی طاقت کو بڑی اہمیت دی، جس نے یہ کہہ دیا کہ اجمیر کے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رح (م 1236 ء) نے دہلی سلطنت کو منگولوں سے محفوظ رکھا۔ اور یہ کہ تغلقوں کے زوال کی وجہ یہ تھی کہ سنہ 1325 ء میں حضرت نظام الدین رح کی رحلت ہو گئ تھی۔ اور یہ بھی کہ دکن میں بہمنی عروج کی وجہ حضرت برہان الدین غریب ( م 1337 ء) اور حضرت زین الدین شیرازی رح (م 1369 ء) ہیں۔ اور بنگال میں الیاس شاہی حکومت کے عروج کو شیخ علی الحق (1398ء) کی روحانی طاقت سے منسوب کر دیا۔ صوبائی طاقتوں، مثلا، مظفر خاں کا گجرات میں عروج بھی اجمیر سے؛ دلاور خاں کا مالوہ میں، اور خود فیروز تغلق کے عروج کو نصیر الدین محمود چراغ دہلی رح سے، منسوب کر دیا۔
—-
تعمیر ریاست کے عمل میں چنندہ یا منتخب مندروں کو توڑنے کی سیاست بھی کچھ یوں تھی۔ مفتوح راجہ کے راشٹردیوتا والے مندر کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جاتا تھا۔ دیگر مندر، جن کی سیاسی اہمیت نہیں تھی، ان عام مندروں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ مثلا، 13 ویں صدی سے قبل، کھجوراہو کے مندروں سے چاندیلا حکمرانوں کا تعلق برقرار نہیں تھا، تو ان مندروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس لئے، “بت شکنی کی تھیالوجی” کے مفروضہ کو جنرلائز نہیں کیا جا سکتا۔ گرچہ فارسی مآخذات میں بت پرستی کی مذمت خوب کی گئ ہے۔
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ، چھٹی صدی عیسوی ہی سے، مندر، دیوتا، زمین، اور راجہ کا تعلق قائم ہو چکا تھا، اور تبھی سے، ایسے سیاسی اہمیت کے حامل مندروں کو نشانہ بنایا جانے لگا تھا۔ یہ مسلم حکمرانوں سے قبل بھی ہوتا آرہا تھا۔ مثلا، سنہ 642 ء میں پللوا حکمراں، نرسنگھ ورمن اول نے چالوکیہ راجدھانی، وتاپی، سے گنیش دیوتا کی مورتی لوٹ کر لے گیا تھا۔ سنہ 692 ء میں چالوکیہ حکمراں بھی شمالی ہند کی مہم میں گنگا اور جمنا کی مورتیاں لے گئے تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں بنگال کی فوج نے انتقاما، کشمیر حکمراں للیتادیتیہ کے شاہی دیوتا، وشنو ویکنٹھ، کی مورتی کو مسمار کر دیا تھا۔ نویں صدی عیسوی میں راشٹر کوٹ حکمراں، گو وند سوئم، نے کانچی پورم اور سری لنکا میں یہی کیا۔ دسویں صدی عیسوی کے اوائل میں پرتیہار حکمراں نے کانگڑا میں مفتوح راجہ کے مندر اور راجہ دیوتا کے ساتھ یہی کیا۔ رچرڈ ایٹن ایسی متعدد مثالیں پیش کرتے ہیں۔ رچرڈ ایچ ڈیوس کی کتاب (1997)، لائیوس آف انڈین امیجیز، میں اس طرح کی بے شمار تفصیلات درج ہیں۔
مغل حکمرانوں کے یہاں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، شاید اس لئے کہ مغلوں نے، لودھی افغان حکمرانوں سے ریاست حاصل کیا تھا، نہ کہ، کسی ہندو حکمراں سے۔ اس لئے سیاسی آتھریٹی کو ظاہر اور قائم کرنے کے لئے ایسے اقدام کی ضرورت نہیں تھی۔ جب کہ 1661ء میں مغل گورنر، میر جملہ، نے کوچ بہار کے راجہ سے منسلک مندروں کو مسمار کیا۔ اور 1662 ء میں برہمپترا کے اہوم حکمرانوں سے منسلک مندروں کو بھی نقصان پہنچایا۔ یعنی چھٹی صدی عیسوی ہی سے مفتوح راجہ کے راج دیوتا کو قبضے میں لے لینا ایک لازمی سیاسی عمل بن چکا تھا۔
—-
مندروں کا تحفظ بھی تعمیر ریاست اور اقتدار کو مستحکم بنائے رکھنے کا آلہ کار تھا۔ لہذا محمد تغلق نے 1326 ء میں کلیان (بیدر) کے شیو مندر کی تعمیر و توسیع کروائ۔ چودہویں صدی کشمیر کے حکمراں سلطان شہاب الدین نے اپنے برہمن وزیر کو ڈانٹ کر خاموش کر دیا جب اس نے مورتیوں کو پگھلا کر نقد روپئے حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سکندر لودی کو اس کے مفتیوں نے یہ مشورہ دے رکھا تھا کہ کسی طور بھی مندروں اور مورتیوں کو کوئ نقصان نہیں پہنچتا چاہئے۔ اکبر کا وزیر، ابوالفضل علامی، بھی محمود غزنوی کے مشیر کاروں کی سخت مذمت کرتا ہے کہ مندروں کو توڑنے کی سیاست قطعی ناقابل قبول ہے۔
رچرڈ ایٹن ہمیں بتاتے ہیں کہ اکبر کے دور سے لے کر 1735 ء تک مغل حکمراں اپنی ریاست کے اندر کے مندروں ( بہ شمول عمارت، مورتی، پجاری، زمینیں وغیرہ) کو ریاست کی خاص جائیداد تصور کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور ترقی کا کام انجام دیتے رہے۔ حکمراں اور محکوم کے رشتے استوار رکھنے کا آلہ کار بنا لیا گیا۔ اکبر نے اپنے اعلی ہندو افسروں کو مندر بنوانے اور تعمیر نو کا کام کروانے کی جانب مائل بھی کیا۔ شاہ جہاں کے منصب دار کو جگن ناتھ مندر کا سر براہ بنا کر، بادشاہ نے، خود کو جگن ناتھ بھگوان کا نمائندہ اور اس مندر کا سربراہ ہونے کا تصور عام کروا دیا۔ (محمد تغلق نے بھی ایسا ہی کیا)۔ یوں بھی مغل کا طریقہ ء سیاست یہ تھا کہ پہلے سے موجود سیاسی آتھرٹی کو ختم کرنے کے بجائے انہیں مغل انتظامیہ کے اندر ضم کر لیتے تھے۔ یعنی، تخت طاؤس اور بھگوان جگن ناتھ کے درمیان ایک مدبرانہ سیاسی تعلق قائم و استوار کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اورنگ زیب جیسے حکمراں کی جانب سے 1659 ء میں بنارس کے افسروں کو جو ہدایت ملی تھی وہ بھی ایسی ہی پالیسی کی غمازی ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ مندروں کو توڑنا غیر شرعی ہے۔
—–
لیکن ایسی مغل پالیسی کے باوجود، ویسے مندر جن کا براہ راست تعلق تھا، ویسے مقامی راجہ یا افسر سے، جو باغی ہو جاتے تھے، یا ہو سکتے تھے، ویسے سیاسی مندروں پر عتاب کا خطرہ لاحق ہو جاتا تھا۔ مثلا، شواجی بھونسلے نے 1659ء میں جب شمالی کونکن ساحل کے بندرگاہ پر قبضہ جما لیا تو مغل کے بیجاپور افسر افضال خاں نے شواجی سے منسلک بھوانی دیوی کے تلجاپور مندر پر حملہ کر دیا۔ 1613ء میں جہاں گیر نے بھی راجہ امر پرتاپ سے منسلک پشکر (نزد اجمیر) کے مندر پر حملہ کر دیا تھا۔
سنہ 1669 ء میں بنارس کے کچھ زمینداروں نے بغاوت کر دیا تھا، اور ان میں سے کچھ پر شک یہ تھا کہ انہوں نے شواجی کو مغل حراست سے فرار ہونے میں مدد بھی کی تھی۔ راجہ مان سنگھ کے پڑپوتے، جے سنگھ پر بھی ایسا شک تھا۔ اور شاید جے سنگھ نے ہی بنارس کا وشواناتھ مندر بھی بنوایا تھا۔ یہ بھی ایک سیاسی پس منظر تھا، ستمبر 1669ء میں وشواناتھ مندر کو نقصان پہنچانے کے پیچھے۔
رچرڈ ایٹن نے دیگر سیاسی و انتظامی پس منظر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس کے لئے قارئین کو اوم پرکاش پرساد کا ایک کتابچہ (1990) پڑھنا ہوگا جو خدا بخش لائبریری میں دیا گیا ان کا خطبہ ہے۔ سنہ 1670ء کے اوائل میں متھرا میں جاٹوں نے بغاوت کر دیا تھا اور وہاں کی ایک مسجد کے متولی کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس بغاوت کا رہنما جب گرفتار کر لیا گیا تو پھر کیشو دیو مندر کے ایک حصے کو منہدم کر کے عید گاہ بنا دیا گیا۔ 1679ء میں راجستھان میں کئ مندر کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان میں جودھ پور کا وہ مندر بھی شامل تھا جس علاقے کا سردار کبھی دارا شکوہ کا حمایتی رہ چکا تھا۔
اس ضمن میں اپریل 1669ء کا اورنگ زیب کے ایک فرمان کی بہت غلط توضیح کی گئ ہے۔ اس فرمان کی عمومی شرح یہ دی گئ ہے کہ اورنگ زیب نے سبھی مندروں کے انہدام کا حکم جاری کیا، جب کہ اس فرمان (شامل از مآثر عالم گیری) کے متن کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہدایت یہ دی گئ ہے کہ مقامی افسر تفتیش کر لیں کہ جن مدارس و مندروں میں مسلمان اور ہندو طلبا کو ایسی مسلکی تعلیم (طور درس و تدریس) دی جا رہی ہے جس سے مسلکی خلفشار شروع ہو سکتی ہے، ان پر نظر رکھی جائے۔ اس فرمان میں “مدارس مقرر” اور “تدریس کتب باطلہ” اور “طالبان ہندو و مسلمان”، جیسے اصطلاحات استعمال کئے گئے ہیں۔
اورنگ زیب نے اس مسجد کےساتھ وہ سلوک روا نہیں رکھا تھا جہاں باغی شیخ محمدی (م 1696ء) نے پناہ لیا تھا۔ اس نے شیخ محمدی کو اورنگ آباد میں قید کر دیا تھا۔ رچرڈ ایٹن نے یہ وضاحت ی ہے کہ مسجد، خانقاہ، کسی مخصوص مقامی حکمراں سے منسلک نہیں مانا جاتا تھا۔ لہذا وہ مندر بھی جو صرف عوام سے وابستہ مانا جاتا تھا، وہ ہمیشہ سیاسی جبر سے محفوظ رہے۔
اس سلسلے میں پاکستان کی فرقہ پرستانہ تاریخ نویسی اور ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر کے فرقہ پرست عناصر نے بھی مندروں کو مسمار کرنے کی تاریخ پر اظہار فخر کر کے معاملے کو مزید متنازعہ بناتے ہوئے کشیدگی اور نفرت کے ماحول کو بڑھاوا دیا ہے۔

پروفیسر محمد سجاد
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

متعلقہ خبریں

تازہ ترین