نوراللہ جاوید
2014 کے عام انتخابات میں ملک کے سیاسی افق پر جب وزیرا عظم نریندی کے ستارے کے چمکنے کا آغاز ہوا تو ملکی میڈیا کی طرح بین الاقوامی میڈیا بھی وزیر اعظم مودی کے لیے رطب اللسان تھا۔ انہیں ملک کے لیے ایک امید کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور یہ پیشن گوئی کی جانے لگی کہ ملک کی مضبوط معیشت اور معاشی استحکام کے لیے مودی کا عروج ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا، مگر چند سال بعد ہی عالمی میڈیا بالخصوص دو مشہور بین الاقوامی میگزین ’ٹائمس‘ اور ’ دا اکنامسٹ‘ نے اس حقیقت کا ادارک کر لیا کہ نفرت انگیز ماحول، سیاسی بدامنی اور سماجی عدم استحکام کے سایے میں کوئی بھی معیشت پروان نہیں چڑھ سکتی ہے۔ چنانچہ ’ٹائمس میگزین‘ نے مئی 2019 کے شمارے کے سرورق پر مودی کی تصویر کے ساتھ’India’s divider in chief ‘کی شہ سرخی لگاتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ ان کے دور حکومت میں بھارتی سماج تقسیم کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور اس کے لیے خود وزیر اعظم مودی ذمہ دار ہیں۔ برطانیہ سے شائع ہونے والی عالمی شہریت یافتہ میگزین ’دا اکنامسٹ‘ جو دائیں بازو کے رجحانات کا حامل ہونے کے باوجود وزیر اعظم مودی کے معاملہ میں محتاط رہتا ہے حالانکہ فسادات کے حوالے سے وہ وزیر اعظم مودی کا سخت ناقد ہے، اس نے بھی 2014 کے بعد کئی سالوں تک اپنے کئی شماروں کے سرورق وزیر اعظم مودی کے نام کیے اور بتایا کہ مودی کی کامیابیاں بھارت کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی، لیکن 2020 میں ’اس نے بھی تسلیم کر لیا کہ مودی کے دور میں بھارت عدم برداشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ اس کا سرورق “Intolerant India” کے عنوان سے مزین تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی میڈیا کے اپنے ایجنڈے ہیں اور وہ اپنے ممالک کے مفادات اور خاص پس منظر میں دنیا کے دوسرے ممالک اور ان کے لیڈروں سے متعلق بیانیے مرتب کرتے ہیں لیکن یہی بین الاقوامی میڈیا جب وزیر اعظم مودی کے حق میں رطب اللسان ہوتا تو اس کے تذکرے ملکی میڈیا اور بی جے پی لیڈروں کے سوشل اکاونٹ میں بڑھ چڑھ پیش کیے جاتے کہ صرف ملکی میڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا مودی کو اچھی نگاہوں سے دیکھتی ہے اور جب یہی بین الاقوامی میڈیا تنقیدیں کر رہا ہوتا ہے تو اس کو ’’نوآبادیاتی ذہنیت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی میڈیا جن واقعات پر وزیر اعظم مودی کی تنقید کر رہا ہے کیا وہ ملک میں رونما نہیں ہو رہے ہیں؟ دا اکنامسٹ نے Intolerant India کے عنوان اسٹوری میں ایک جگہ لکھا کہ ’’افسوس ہے کہ جو چیزیں بی جے پی کے لیے انتخابی امرت ثابت ہو رہی ہیں وہ بھارت کے لیے سیاسی زہر ہے، آئین کے سیکولر اصولوں کو لگاتار مجروح کیا جا رہا ہے۔ مسٹر مودی اور ان کی پارٹی مسلسل ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے بھارت کی جمہوریت کو جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بہتر انداز میں چل رہی تھی، شدید نقصانات پہنچ رہے ہیں اور اب تو خونریزی کا بھی امکان بڑھ گیا ہے‘‘۔
دا اکنامسٹ کی اسٹوری کے ان الفاظ کو 29 مارچ 2023 کو نفرت انگیز تقاریر پر سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے تبصرے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اور ادارے جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہ کوئی نوآبادیاتی ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ بدلتے ہوئے بھارت کی سب سے بڑی سچائی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ ملک میں نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کا جو ماحول پیدا ہوا ہے وہ سیاسی لیڈروں کے ذریعہ مذہب کا غلط استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔ سپریم کورٹ جو عام طور پر ’نا مرد‘ جیسے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کرتا لیکن جسٹس جوزف نے واضح لفظوں میں کہا کہ “ملک میں نفرت انگیز ماحول اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ اس لیے نہیں رک رہا ہے کہ حکومتیں ’نا مرد‘ ہو چکی ہیں۔ حکومتوں میں اس پر قابو پانے کا عزم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ سخت تبصرہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں آیا ہے، اس سے قبل بھی وہ متعدد مرتبہ اس معاملے میں سخت الفاظ کا استعمال کر چکی ہے۔ ستمبر 2022 میں سپریم کورٹ میں میڈیا کے اقلیت مخالف جارحانہ رویے پر سخت سرزنش کی تھی جو نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ مرکزی حکومت کو میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو ریگولرائز کرنے کے لیے قوانین بنانے کی ہدایت دے چکی ہے۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس سمت میں کام کر رہی ہے، بالخصوص انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو ضابطہ کا پابند بنانے پر کام جاری ہے۔ تین دن قبل سپریم کورٹ کے جج جسٹس کے ایم جوزف نے جو تبصرے کیے وہ یہ بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی سرزنش اور سخت ہدایات پر عمل کرنے کی نہ مرکز کوئی فکر ہے نہ ریاستی حکومتوں کو کوئی پروا۔
ان حالات میں سوال سپریم کورٹ کو خود سے کرنا چاہیے کہ جب حکومتیں اس کی ہدایتوں کی پروا نہیں کر رہی ہے تو پھر ملک کا کون سا ادارہ باقی رہ گیا ہے جو قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے گا؟ کیا سخت تبصرے اور سرزنش کرکے سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود مہاراشٹر میں صرف 4 مہینوں میں شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے ’’لوجہاد‘‘ اور ’’زمین جہاد‘‘ کے نام پر 50 ریلیاں منعقد کی گئیں جنہیں پولیس نے مکمل سیکیورٹی فراہم کی جبکہ ان ریلیوں میں کھلے عام مسلمانوں کو دھمکیاں دی گئیں اور ہندوؤں سے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس دوران پولیس کا کردار خاموش تماشائی کا رہا۔ کیا سپریم کورٹ اپنی ہدایت پر عمل درآمد نہ کرنے پر مہاراشٹر حکومت کے خلاف ’توہین عدالت‘ کی کارروائی نہیں کرسکتی؟ کیا عدالت کو اشتعال انگیز تقاریر پر محکمہ پولیس کی جانب سے از خود ایف آئی آر درج نہ کرنے کا نوٹس نہیں لینا چاہیے؟
عدلیہ کا کام فیصلہ سنانا ہے اور فیصلوں کو نافذ کرنا ایگزیکٹیو کا کام ہوتا ہے۔ کیا یہ باعث شرم نہیں ہے کہ انٹرنیٹ پر مسلم مخالف پوسٹ کرنے کے معاملے میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارت دنیا میں سب سے آگے ہے؟ (اعداد وشمار جدول میں ملاحظہ کرسکتے ہیں) سوال یہ ہے کہ اس پر لگام کسنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟ستمبر 2022 کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ نفرت انگیز مہم چلائے جانے سے متعلق عرضیوں کی سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ کے سخت تبصرے کے باوجود نہ حکومت نے اور نہ ہی میڈیا ریگولیٹر تنظیموں نے اس پر کوئی کام کیا، حتی کہ جسٹس رائے کو براڈ کاسٹر ریگولیٹر سے کہنا پڑا کہ آپ 4 ہزار آرڈر پاس کر چکے ہیں کیا ان آرڈرز کا کوئی اثر ہوا بھی ہے؟
عدالت عظمیٰ خود محسوس کرتی ہے کہ نفرت انگیزی کے معاملے میں حکومت کارروائیاں تو کرتی ہے مگر یہ کارروائیاں ’سلیکٹیو‘ ہوتی ہیں، مخصوص طبقے کے نوجوان اور اس کے لیڈر اگر کوئی متنازع بیان دیتے ہیں تو انتظامیہ فوری حرکت میں آجاتی ہے مگر دیگر معاملات میں حکومت اور پولیس کا رویہ انتہائی جانب دارانہ ہوتا ہے۔ اعظم خان اور راہل گاندھی کو سزائیں اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ دلی فسادات کے دوران زہر افشانی کرنے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی اور عدالت نے بھی انہی لیڈروں کے حق میں فیصلہ سنایا۔ این ڈی ٹی وی نے 2020 میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ 2014 کے بعد اب تک سیاسی لیڈروں کے ذریعہ نفرت انگیز تقاریر کے کل 348 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں سے 297 تقاریر کے لیے بی جے پی لیڈر ذمہ دار ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے تجزیہ کے مطابق نام نہاد وی آئی پی (VIP) لیڈروں کے ذریعہ نفرت انگیز تقاریر میں 160 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے کپڑے سے پہچان اور قبرستان جیسے بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بیان بھی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے ممکنہ نفاذ کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف امیت شاہ کے بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ جب ایگزیکٹیو کے اعلیٰ عہدیدار ہی نفرت انگیزی میں ملوث ہوں تو اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ www.kractivist.org نے ایک رپورٹ # India: Hate Spech as a Toll for the Modi Brigade# کے زیر عنوان لکھا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی بریگیڈ کے نفرت انگیز بیانات سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک ٹول رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں گجرات فسادات کے دوران اور اس کے بعد وزیر اعظم مودی کے جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، مختلف بیانات کے اہم حصے شائع کیے ہیں۔سپریم کورٹ نے تین دن قبل جو تبصرے کیے ہیں اگرچہ ان میں کسی بھی سیاسی جماعت اور اس کے لیڈروں کا نام نہیں لیا گیا ہے مگر اس نے بین السطور میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سیاست میں مذہب کے غلط استعمال کی وجہ سے ہی نفرت انگزیز بیانات کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو اگر اس حقیقت کا ادراک ہے تو پھر وہ اس پر کارروائی کیوں نہیں کر رہی ہے؟ دھرم سنسد کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود دلی پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے میں چارہ ماہ لگ گئے تو یہ صرف پولیس کا مجرمانہ عمل نہیں بلکہ عدالت کی بھی توہین ہے۔ پھر اس حرکت کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ صرف تاریخ پر تاریخ، حکومت سے جواب طلبی پر اکتفا اور فیصلہ میں تاخیر نے بھی نفرت انگیز اور اشتعال انگیزی کے ذریعہ ’’سیاسی صنعت‘‘ کو فروغ دینے والوں کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ کو نفرت انگیز تقریر کی سنگینی اور اس کے نتائج و اثرات کا علم ہے اور جسٹس جوزف اور جسٹس رائے نے کہا بھی ہے کہ یہ ایک عفریت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کی زد میں صرف اقلیت اور مخصوص گروپس ہی نہیں آئیں گے بلکہ پورا ملک آئے گا۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ ایگزیکٹیو کی بد عملیوں کو دور کر کے سپریم کورٹ ہی واضح موقف اختیار کرے۔
کیا موجودہ قوانین نفرت انگیز بیانات کے خلاف کافی ہیں؟
1994 میں راونڈا میں اپریل سے جولائی کے درمیان یعنی 100 دنوں کے دوران 50 توتسی شہریوں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کی گئی تھی۔ اس قتل عام کی وجوہات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جو آسانی سے دستیاب ہے، تاہم دو اہم وجوہات جس کی طرف یہاں توجہ دلانا بہت ہی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ راونڈا میں تیزی سے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اشرافیہ طبقہ مالدار سے مالدار تر ہوتا جا رہا تھا تو دوسری طرف غریب طبقہ مزید غربت کی جانب بھی بڑھ رہا تھا۔حکومت مکمل طور پر نا کام ہو چکی تھی۔اس ناکامی کو چھپانے کے لیے حکومت کی سرپرستی میں ملک کے اقلیتی طبقات کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کی گئی اور اس کے لیے میڈیا کا استعمال کیا گیا۔ راونڈا کے قتل عام اور میڈیا کے کردار پر تفصیل سے گفتگو کرنے والی کتاب The Media and the Rwanda Genocide میں چشم کشا انکشافات کیے گئے ہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نسل کشی سے قبل راونڈا کا پرنٹ میڈیا اور ریڈیو کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا۔ راونڈا کا میڈیا لگا تار توتسی اقلیتی نسلی گروپ کے خلاف زہر افشانی کرتا تھا اور روانڈا کی انتظامیہ نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہتی تھی بلکہ اس کی پذیرائی کر رہی تھی۔ نتیجہ میں 1994 میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام اور بے شمار خواتین کی عصمت دری کی گئی جس کی رواداد پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جس وقت راونڈا کا میڈیا اکثریتی طبقے کی حمایت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا مشنری چلا رہا تھا تو مقامی میڈیا اس نفرت انگیز اور جارحانہ مہم کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دے کر اس کے کرتوتوں کو جواز بخش رہا تھا۔ اس وقت بھارت میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میڈیا کی اقلیت مخالف جارحانہ مہم کو آرٹیکل 19A کا حوالہ دے کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اظہار رائے کی آزادی کے معاملے میں ہم سے زیادہ حساس ہیں مگر وہاں بھی اظہار رائے کی آزادی سے کچھ معاملات کو مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں پبلک آرڈر ایکٹ 1986 کے تحت سیکشن 18-29 میں نسلی منافرت کو بھڑکانے یا بھڑکانے کے ارادے سے کیے جانے والے بیانات پر کارروائی کا انتظام کیا گیا ہے۔ کینیڈا میں ضابطہ فوجداری، 1985 کی دفعہ 319 کے تحت عوامی نفرت کو بھڑکانے پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ کی آئین کا سیکشن 16 آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے، اس کے تحت جنگ کے لیے پروپیگنڈہ، تشدد کو بھڑکانے یا نفرت کی وکالت کرنے جیسے معاملات میں سزا کا انتظام کیا گیا ہے۔
نفرت انگیز بیانات کی کیا تعریف ہے اور کس بیان کو نفرت انگیز قرار دیا جائے گا اس تعلق سے ملک کے کسی بھی قانون میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ چنانچہ لا کمیشن آف انڈیا نے مارچ 2017 کی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’نفرت انگیز تقریر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے انڈین پینل کوڈ میں نئی دفعات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے‘‘ لا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ قانون میں عام دفعات کی وجہ سے، عدالتیں اپنے سامنے لائے گئے نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس نے قانون میں نئی دفعات شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی تقریر جو نفرت کو بھڑکاتی ہو یا مذہب یا برادری کی بنیاد پر خوف اور خطرے کا باعث بنتی ہو اس سے نمٹا جا سکے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کے ذریعہ نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ انڈین پینل کوڈ میں کئی قانونی دفعات یا سیکشنز موجود ہیں جس کے تحت نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ان میں سیکشن 153A شامل ہے جس میں ہم آہنگی میں خلل ڈالنے اور مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے والوں کے خلاف کارروائی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ 153B کے تحت کسی بھی کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے اور 295A میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا انتظام ہے۔ دلی میں مقیم ایڈووکیٹ آن ریکارڈ طلحہ عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ ’’قانون کو ایمانداری سے لاگو نہیں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو نریندر دامودر داس مودی کے بجائے ’’نریندر گوتم داس مودی‘‘ کہنے پر کانگریس لیڈر پون کھیرا کی گرفتاری کی ایک حالیہ مثال دی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں بھی دفعہ 153A کا استعمال کیا گیا جب کہ پون کھیرا کی تقریر کسی بھی طرح سے مجرمانہ نہیں تھی۔ اگر ان قوانین کو مناسب طریقے سے نافذ کیا جائے تو ان نفرت انگیز تقریر کے واقعات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ دلی میں ہی مقیم ایک اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انس تنویر بتاتے ہیں کہ ’’یہ قوانین سپریم کورٹ کے ذریعہ جاری کیے گئے رہنما خطوط کے ساتھ نفرت انگیز تقریر کے واقعات سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں مگر اس معاملے میں اہم کردار نچلی عدالتوں کا ہے، کیونکہ وہی اس معاملے کی نگرانی کرتی ہیں اور مقدمات کی کارروائی کو یقینی بنانے کی مجاز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذمہ داری نچلی عدالتوں پر بھی آتی ہے جو تحقیقات کی نگرانی کرتی ہیں تاکہ ان مقدمات میں کارروائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ دلی کے ایک اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد جو نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات میں وکیل بھی ہیں کہتے ہیں کہ اگر عدالت نفرت انگیز تقاریر کے کچھ واقعات کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور پولیس کو جواب دہ ٹھیراتی ہے تو نفرت انگیز بیانات کے سلسلے کو روکا جا سکتا ہے۔ وہ نفرت انگیز بیانات سے متعلق نئے قوانین سازی سے کے بارے میں کہتے ہیں کہ نیا قانون ایک مثبت قدم ہو گا۔ عدالت کی اپنی حدود ہیں۔ پولیس کی ہر عدم کارروائی پر کون سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہے گا؟ چیزوں کو زمین پر حل کرنا ہو گا۔ ایڈووکیٹ انس تنویر کے مطابق نفرت انگیزی کی ایک الگ تعریف اور اس سے متعلق براہ راست قانون ہونے سے کم از کم یہ فائدہ ہو گا کہ نفرت انگیز تقاریر پر پہلی معلوماتی رپورٹس کے اندراج کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت جو قوانین ہیں ان میں فوری ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ تاہم نئے قانون سے زیادہ اہم سوال کارروائی اور نیک نیتی کے فقدان کا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ’پولیس کی مذہبی ساخت یا نفرت انگیز جرائم کی تعداد جیسے اعداد وشمار جاری کرنا بند کر دیا ہے اس لیے حالیہ تین برسوں میں نفرت انگیز بیانات کے ریکارڈ سامنے نہیں ہیں ۔2017 اور 2020 کے درمیان تعزیرات ہند کی دفعہ 295-297 کے تحت درج مقدمات جو کسی فرد یا کمیونٹی کے مذہبی عقائد کے خلاف توہین سے متعلق ہیں، 2017 سے قبل کے مقابلے میں 3.2 فیصد کم بتائی گئی ہے جبکہ 2019 سے 2020 کے دوران 16.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سیکشن کے تحت درج مقدمات میں سات سالوں میں چھ گنا یا تقریباً 500 فیصد اضافہ ہوا۔ 2014 میں 323 اور 2020 میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 1,408 واقعات درج ہوئے ہیں۔ تاہم یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان مقدمات کتنے لوگوں کو سزا ہوئی۔ کیونکہ پہلے ان معاملات میں مقدمات درج ہی نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو عدم ثبوت کی وجہ سے بیشتر معاملات کو عدالتیں خارج کر دیتی ہیں ۔
نفرت انگیز بیانات امن و سلامتی اور معیشت کے لیے خطرہ
ملک کی معیشت کی رفتار اس وقت کس سمت میں جارہی ہے یہ ایک طویل موضوع ہے۔ دنیا کی کوئی بھی معیشت سماجی استحکام اور امن وامان کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی کے نفاذ میں بے ضابطگی، کورونا وائرس اور اب روس-یوکرین جنگ نے ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ معاشی رفتار کو تیز کرنے کے لیے سرکاری کمپنیوں کو جس طرح بیچ دیا گیا اور لابنگ کی گئی ہے وہ ان دنوں موضوع بحث ہے۔ بہتر معیشت کے لیے ضروری ہے کہ باہر کی دنیا سے سرمایہ اندرون ملک آئے مگر ان دنوں بین الاقوامی میڈیا میں جس طریقے سے ہندو قوم پرستی سے متعلق رپورٹنگس ہو رہی ہیں اس نے سرمایہ کاروں کو محتاط کردیا ہے۔چنانچہ جارج سوروس جیسے بڑے سرمایہ کار بھی بھارت کی صورت حال پر سخت تبصرے کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ عرب دنیا سے مضبوط تعلقات رکھنے کے لیے وزیرا عظم مودی ہمیشہ پر جوش رہتے ہیں، انہوں نے کئی بار کہا بھی ہے کہ عرب دنیا سے ان کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے کانگریس حسد کا شکار ہے۔ مگر
کورونا وائرس کے بعد جس طریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور جس تیزی کے ساتھ اسلامو فوبیا اور توہین رسالت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اس نے عرب دنیا کو بھی بے چین کر دیا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے عوام کے جذبات واحساسات کو زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اب جبکہ سعودی عرب امریکی سایہ سے نکل کر چین اور روس سے اپنے تعلقات مضبوط کر رہا ہے اور ایران سے سفارتی تعلقات قائم ہو رہے ہیں تو اس وجہ سے اس خطے میں چین کے اثرات میں اضافہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ چین کی ترجیحات میں پاکستان ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارت کے سیاسی معاملات میں اکثر خاموشی اختیار کرنے والا سعودی عرب چین کے اثر میں آکر کشمیر سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ مضبوط اور خود کفیل بھارت کا خواب دیکھنے والے وزیر اعظم مودی جلد سے جلد اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ دنیا کا ہر وہ ملک جو اپنی اقلیتوں کی تذلیل کرتا ہے اور ان کی شہریت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے، تعلیمی اداروں کو تباہ کرتا ہے، دوستوں کو نوازتا ہے اور تنقید کرنے والوں پر وحشیانہ حملے کرتا ہے، وہ کسی بھی صورت میں مستحکم نہیں ہو سکتا ہے۔ بد قسمتی سے اس وقت ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے مسلمان کیا کر سکتے ہیں؟
جب مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ملک پر ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا نریندر مودی یا امت شاہ کا ہے تو ملک کو بچانے کی ذمہ داری بھی دوسروں کی طرح مسلمانوں کی ہے۔ ملک کی آزادی میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر محاذ پر قربانیاں دیں، اسی کے نتیجے میں ملک کو آزادی نصیب ہوئی مگر آزادی کے بعد ملک کے حالات میں تیزی سے تبدیلی سے آئی اور فسادات کے لامتناہی سلسلے نے مسلمانوں کے سامنے سیکیورٹی کے مسائل کھڑے کر دیے جبکہ فرقہ پرست قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔ آج ملک فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر ملک میں انتخاب جیتے جا رہے ہیں۔ ترقی اور ملک کے استحکام کا سوال پس پشت چلا گیا ہے۔ اس نفرت انگیز ماحول کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کو آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان کا مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مساجد و مدارس کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیں۔ انہیں اسلامی تعلیمات اور اس کے پیغام کو ملک کے کونے کونے تک پہنچائیں۔ یہ کوشش صرف چند مذہبی شخصیات اور لیڈروں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ہر محلے اور گاؤںکی سطح پر ہونی چاہیے۔