Wednesday, December 4, 2024
homeتجزیہبہار اور بنگال میں فسادیوں کے حوصلے کیوں بلند ہے؟

بہار اور بنگال میں فسادیوں کے حوصلے کیوں بلند ہے؟

بہار اور بنگال میں رام نومی کے موقع پر ہنگامہ آرائی، جھڑپ و تشدد کے واقعات گزشتہ چند سالوں سے معمول بن چکے ہیں۔ چنانچہ اس سال بھی خدشے اور اندیشے ظاہر کیے جارہے تھے کہ رام نومی کے موقع پر حالات خراب ہوسکتے ہیں، اس کے باوجود نہ بنگال میں اور نہ ہی بہار میں رام نومی کے جلوس کے موقع پر سیکیورٹی کے پختہ انتظامات کیے گئے تھے تاکہ انہونی ہونے کی صورت میں حالات پر قابو پایا جا سکے۔ عجب اتفاق ہے کہ بہار اور بنگال دونوں ریاستوں کی حکومتیں دعوے کر رہی ہیں کہ شرپسند عناصر نے منصوبہ بند طریقے سے حالات خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاستوں کی اپنی خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں جبکہ بنگال کی وزیرا علیٰ ممتا بنرجی خود اس اندیشے کا اظہار کیا تھا؟ اس کے باوجود فسادیوں کو قبل از وقت قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہوڑہ میں گزشتہ سال بھی رام نومی کے موقع پر حالات خراب ہوئے تھے۔ ہوڑہ میں ہی وشو ہندو پریشد مسلسل سڑک پر ہنومان چالیسا کے لیے اصرار کرتی رہی ہے۔ اسی طرح رام نومی سے قبل 22 مارچ کو بہار کے 111ویں یوم تاسیس کے موقع پر بہار کے ضلع دربھنگہ میں ہندو راشٹر کا مطالبہ لے کر جھنڈے لہرائے جانے کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس کے باوجود بہار شریف اور سہسرام میں تشدد کے واقعات کا رونما ہونا حکومت پر ہی سوالیہ نشان ہے۔

اگرچہ کہ اس سال اتر پردیش میں حالات خراب ہونے کی کوئی خبر نہیں ہے لیکن اگر یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت رام نومی کے موقع پر پولیس انتظامیہ کو سخت اور جلوس کے لیے دیے گئے روٹ پر سختی سے عمل کرواکر حالات کو قابو میں کرسکتی ہے تو پھر غیر بی جے پی والی ریاستیں یہ کام کیوں نہیں کر سکیں۔ فسادیوں کے سامنے ان کے حوصلے پست کیوں ہو جاتے ہیں۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی نے پہلی مرتبہ اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا ہے بلکہ وہ فروری 2022 میں وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ 2017کے بعد اترپردیش میں کوئی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے مگر 8 ستمبر 2022 کو Factchecker.in میں شائع ہونے والی دیوانی دوبے کی ایک رپورٹ میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ’’ دنگا مکت اتر پردیش‘‘ کا دعویٰ حقائق کے برخلاف ہے۔ اتر پردیش میں 2017 تا 2021 کے درمیان 35040 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں سے صرف 2021 میں پانچ ہزار سے زائد کیس درج ہوئے ہیں۔ جہاں تک سوال 2023 میں رام نومی کے موقع پر فساد نہ ہونے کا ہے تو اس میں کچھ وزن بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بہار اور بنگال کی طرح رام نومی کے تہوار کو اترپردیش میں بھی جارحانہ انداز میں منانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ یوگی حکومت کے ذریعہ رام نومی کے جلوس کے لیے جو راستے متعین کیے گئے تھے کیا جلوس کے شرکا اور اس کے منتظمین نے اس کی خلاف ورزی کرنے پر اصرار نہیں کیا؟ اس سال رام نومی کے موقع پر فسادات نہ ہونے کے سوال کو مذکورہ بالا سوالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہار اور بنگال اور ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے وہاں ہندو تنظیموں کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے اور ہر ایک سوال ہندوتوا اور سناتن دھرم کے سوال سے جوڑ دیتا ہے اور اس سوال کی وجہ سے ہندوؤں کے ووٹ کھونے کے خوف سے حکومتیں فسادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔ بنگال میں رام نومی کا جلوس مذہبی سے زیادہ سیاسی بن گیا تھا۔ بی جے پی لیڈر بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور روٹ متعین کیے جانے کی یہ کہہ کر مخالفت کی جا رہی تھی کہ ہندوؤں کو اپنی مرضی سے جلوس نکالنے پر بھی پابندی ہے وغیرہ۔

بنگال میں فرقہ وارانہ فسادات : حکومت کی ناکامی

رام نومی کے موقع پر ہوڑہ اور ہگلی میں تشدد کے جو واقعات رونما ہوئے ہیں اس کو فرقہ وارانہ فسادات نہیں کہا جا سکتا بلکہ انہیں یکطرفہ حملے اور تشدد کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس کے باوجود قومی میڈیا نے اس معاملے میں غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا ثبوت پیش کیا اس کی وجہ سے ماحول میں مزید کشیدگی اور ریاست کے دوسرے حصوں میں بھی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔آزادی کے بعد ابتدائی چند سالوں کو چھوڑ کر مغربی بنگال 2014 تک فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں پرامن رہا ہے، بلکہ بنگال کو ہم آہنگی کا گڑھ بھی کہا جاتا تھا۔ 2015 تک بنگال میں رام نومی کے موقع پر ایک دو جگہوں کے علاوہ کہیں پر بھی جلوس نہیں نکالے جاتے تھے بلکہ رام نومی کے تہوار کو منانے کی کوئی روایت ہی نہیں تھی، مگر بی جے پی کے عروج کے ساتھ ہی رام نومی کے موقع پر جلوس کی شروعات ہوئی اور اس کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ بھی آغاز ہوا۔ آر ٹی آئی کارکن اور سماجی محقق بسواناتھ گوسوامی کے مطابق ہوڑہ سٹی پولیس نے صرف 18 مہینوں میں فسادات کے 59 مقدمات درج کیے (2021 میں 36 اور 2022 میں 23)۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ ہاوڑہ فسادات جان بوجھ کر منصوبہ بند طریقے سے انجام دیے گئے۔ یہ صرف انٹلیجنس کی ناکامی نہیں تھی بلکہ سیاسی فائدے کے لیے اٹھایا گیا فساد ہے۔ہوڑہ تشدد پر ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان جس طریقے سے بیان بازی ہو رہی ہے اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے اس سے کم سے کم یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس تشدد کے پیچھے سیاسی عزائم کار فرما ہیں۔ دونوں جماعتیں اور پولیس اس بات پر متفق ہیں کہ کچھ بیرونی عناصر کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان عناصر سے متعلق خفیہ ایجنسیاں ناکام کیوں رہیں؟ 2021 اسمبلی انتخابات میں اقتدار تک پہنچنے میں ناکام رہنے والی بی جے پی بنگال کی سیاست میں بتدریج حاشیہ پر پہنچ رہی تھی۔ ہوڑہ اور ہگلی کے چند علاقوں میں ہونے والے تشدد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو ’’ہندو خطرے ‘‘میں ہے جیسے نعرے کے ذریعہ ہندو ووٹروں کے پولرائزیشن کا موقع مل گیا ہے۔ پنچایت انتخابات سے قبل ان فسادات کا رونما ہونا اس کے لیے کسی بھی سنہری موقع سے کم نہیں ہے۔ مرشدآباد کے ساگر دیگھی ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد سے ممتا بنرجی مسلم ووٹروں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ترنمول کانگریس کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ مسلمانوں کا اعتماد اس پر سے ختم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ممتا بنرجی نے حالیہ دنوں میں مسلمانوں کا اعتماد جیتنے کے لیے کئی بیانات دیے ہیں۔اس بات پر بھی بحث کی جارہی ہے کہ کیا یہ سب مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کا حصہ تو نہیں ہے۔ کسی بھی فرقہ وارانہ تشدد کو اگر سیاسی نفع و نقصان کے پیمانے سے تولا جائے تو پھر اس سے بڑھ کر بدنصیبی کی بات اور کچھ نہیں ہو سکتی۔

کلکتہ سے محض چند کلو میٹر کی دوری پر واقع ہوڑہ کے شیپ پور کا یہ علاقہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی ملی جلی آبادی ہے۔ یہاں پر جلوس کے معاملے میں پہلے بھی تنازعات ہوئے تھے اس کے باوجود پولیس انتظامیہ بھیڑ پر قابو پانے اور جلوس کے لیے متعین کی گئی روٹ پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی۔ جلوس میں تلواروں و لاٹھیوں کے ساتھ پہلے لوگ شامل ہوتے تھے مگر اس سال باضابطہ لوگوں کے ہاتھوں میں بندوق اور دیگر ہتھیار بھی تھے۔ اگرچہ پولیس دو افراد کو بہار سے گرفتار کرنے میں کامیاب رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان عناصر پر پہلے کیوں نہیں قابو پایا گیا۔ جمعرات کی شام رام نومی کے موقع پر حالات خراب ہونے کے بعد بھی جمعہ کو سیکیورٹی انتظامات سخت نہیں کیے گئے تھے اس کی وجہ سے دوسرے دن بھی جھڑپ ہوئی۔ ہوڑہ سے متصل ہگلی کے علاقے میں اتوار اور پیر کو بڑے پیمانے پر تناؤ اور دونوں جانب سے پتھر بازی ہوئی۔کلکتہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ’رام نومی کے دو دن بعد جلوس نکالنے کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ ہوڑہ میں تشدد کے واقعات ہوچکے تھے؟ دوسری بات یہ کہ اتوار کو دوپہر ایک بجے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی تھی اور امن کمیٹی کی میٹنگ میں طے کیا گیا تھا کہ جلوس میں ہتھیار لے کر کوئی بھی شریک نہیں ہوگا۔اس کے باوجود جلوس نکالنے میں چار گھنٹے کی تاخیر کی گئی۔ جلوسیوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے۔ رمضان کے مہینے میں مسجدوں میں مغرب کی نماز کے وقت نمازیوں کی کافی تعداد ہوتی ہے۔ رشڑا کی جامع مسجد کے پاس جلوس اس وقت پہنچا جب روزہ دار افطار کرنے کے بعد نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔ یہاں پر جلوسی نعرہ بازی کرنے لگے اور اسی درمیان بھیڑ میں سے کسی نے پتھر پھینک دیا۔ چار دن گزر جانے کے باوجود پولیس انتظامیہ یہ معلوم نہیں کرسکی ہے کہ چار گھنٹے کی تاخیر کوئی اتفاق تھا یا پھر یہ جان بوجھ کر مغرب کی نماز کے وقت جلوس نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ رشڑا کے مقامی ہندوؤں کے مطابق انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ رام نومی کا جلوس نکالنے میں دو دن کی تاخیر کیوں کی گئی اور متعینہ وقت پر جلوس کیوں نہیں نکالا گیا۔ یہ صورت حال ان کے لیے بالکل نئی ہے۔ اس سے پہلے یہاں انہوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ رشڑا جامع مسجد کے آس پاس دوکاندار اس جگہ نشان دہی کرتے ہیں کہ کس طرح اچانک جلوس کی طرف سے پتھر بازی ہونے لگی۔ پتھر کے نشانات مسجد کی در ودیوار پر صاف صاف نظر آرہے ہیں۔ ہاوڑہ اور رشڑا میں جن دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ہے اس کے مالکین سب مسلمان ہیں اور سب کے سب چھوٹے دکان دار ہیں۔ رمضان میں یہ فساد ان کے لیے بڑی مصیبت لے کر آیا ہے۔

بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات
رام نومی کے موقع پر بہار کے دو مقامات بہار شریف اور ساسارام میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے جس میں بہار شریف میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔اس علاقے کے قدیم مدرسہ عزیزیہ کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا اور اس کے ساتھ اس سے ملحق لائبریری جہاں 4500 سے زائد کتابیں تھیں جس میں بڑی تعداد میں نایاب کتابیں بھی تھیں سب جلا کر خاکستر کردی گئیں۔ اس کے علاوہ ایک مسجد اور چند دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ایک گودام کو لوٹ لیا گیا۔ مدرسہ عزیزیہ بہار شریف میں جو کہ مدرسہ بورڈ سے الحاق شدہ ہے، تقریباً 500 طلباء زیر تعلیم ہے۔ مدرسہ کے پرنسپال مولانا قاسم نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ طلباء کے کاغذات اور مارک شیٹس سمیت تمام کتابیں جل گئی ہیں۔ آگ لگنے سے عمارت میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ انٹرنیٹ سروس بحال ہونے کے بعد، ہم مدرسہ بورڈ سے درخواست کریں گے کہ وہ مارک شیٹس دوبارہ دستیاب کرائیں اور عمارت کی تعمیر نو کے لیے فنڈز بھی طلب کیا جائے گا تاکہ طلبا کی پڑھائی دوبارہ شروع کی جاسکے ۔بہار شریف میں تشدد کیسے شروع ہوا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ امن کمیٹی کے ایک رکن70 سالہ اکبر آزاد بتاتے ہیں کہ جلوس بڑی حد تک پرامن تھا۔ اسی درمیان ہجوم میں شامل چند نوجوان آگے آکر جے شری رام کے نعرے لگانے لگے اور اسی کے ساتھ جلوس میں بھگدڑ مچ گئی اور بھیڑ کا رخ مدرسہ عزیزیہ کی طرف موڑ دیا گیا۔ رات بھر پتھراؤ ہوتا رہا، ہم اپنے گھروں میں محصور رہے، زخمیوں کی مدد کے لیے ایمبولنس طلب کی گئی مگر وہ دستیاب نہیں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تشدد کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔ جلوس سے قبل ضلع انتظامیہ نے بتایا کہ امن کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی۔ میٹنگ میں شامل ایک ممبر نے بتایا کہ ’’بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے نمائندوں نے بتایا تھا کہ جلوس کے لیے دیہی علاقے سے درجنوں افراد کو بلایا گیا ہے اور اس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ شرکت کریں گے۔ لیکن پولیس نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ اس بڑے جلوس کے ساتھ ایک درجن سے بھی کم داروغے اور لیڈی کانسٹبلس موجود تھیں۔ ساسارام میں ہونے والے تشدد سے متعلق مقامی صحافی انوراگ شرن کہتے ہیں کہ ساسارام میں، جھڑپیں صرف چند علاقوں تک محدود تھیں لیکن سوشل میڈیا پر جعلی خبروں اور کچھ نیوز چینلز کی غلط رپورٹنگ نے قصبے کی گنگا جمنی تہذیب کو بدنام کیا اس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوگئے۔نالندہ کے ایس پی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جلوس میں شر پسند عناصر داخل ہو گئے تھے۔ مگر سوال وہی ہے کہ آخر پولیس کی خفیہ ایجنسیاں ان عناصر کی شناخت کرنے میں ناکام کیوں رہیں؟

22 مارچ کو ہی بہار کے 111ویں یوم تاسیس کے موقع پر دربھنگہ میں ہندوبراشٹر اور بھگوا جھنڈے لہرانے کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے بعد بھی اگر سیکیورٹی کے انتظامات میں کوتاہی پائی گئی تو ظاہر ہے کہ صرف فسادیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لیے بہت حد حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ جہاں تک سوال بہار شریف میں ہونے والے تشدد کے واقعات سے ہے تو یہاں گزشتہ چند دہائیوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات نہیں ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی 1946 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی یادیں محفوظ ہیں۔ کئی مورخین نے لکھا ہے کہ اگست 1946 میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے کی وجہ سے بنگال میں ہونے والے نقصانات کا بدلہ لینے کے لیے بنگال کے امیر تاجروں نے فسادیوں کی مالی مدد کی تھی تاکہ بہار شریف کے مسلم تاجروں پر حملے کیے جاسکیں۔ اس وقت مسلم لیگ نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً 30ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے جب کہ برطانوی ذرائع نے 8 سے 9 ہزار مسلمانوں کے قتل کی تصدیق کی تھی۔ بہار فرقہ وارانہ فسادات کی بھیانک یادوں کی تاریخ سے ابھر کر ایک لچکدار، سیکولر سماجی تانا بانا قائم کرنے میں کامیاب رہا تھا مگر اس سماجی تانے بانے پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں جس کی حفاظت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگئی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین